مسلم لیگ نواز کی تنظیم نو… دیر آید درست آید

پاکستان کے تین بار وزیراعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف چند ہفتے آزادی کا مزہ  لے کر ضمانت کی مدت ختم ہونے کے بعد واپس جیل جا چکے ہیں۔ جیل جانے کا جو راستہ انہوں نے چنا ہے، وہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ میاں صاحب نے جو راستہ اپنے خلاف سپریم کورٹ اور احتساب عدالت کے فیصلوں کے بعد چنا تھا۔ وہ آج بھی اس پر قائم ہیں۔

میاں صاحب کے اس فیصلے پر ان کے مخالفین جو کچھ بھی کہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے سیاسی قد کاٹھ  میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور جن لوگوں کا خیال تھا کہ اقتدار کے خاتمے کے بعد نواز شریف کی سیاست اور مسلم لیگ کا خاتمہ ہو جائے گا، یہ صورت حال ان کے لیے مایوسی کا باعث ہے۔ 

سپریم کورٹ میں میاں صاحب کی ضمانت میں توسیع اور یورپ جا کر علاج کروانے کی درخواست کے مسترد ہونے کے بعد میاں صاحب کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی سماعت ہو رہی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ اس پر کیا فیصلہ آتا ہے۔

دوسری جانب میاں شہباز شریف کے بیرون ملک جانے اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے مستعفی ہونے نے بہت سی چہ میگوئیوں کو جنم دیا ہے۔



بعض لوگوں نے یہ تبصرہ کیا کہ یہ مسلم لیگ نواز کی شکست کا اعتراف ہے، جتنے منہ اتنی باتیں۔

پھر میاں محمد نواز شریف کی سپریم کورٹ میں طبی بنیادوں پر ضمانت اور باہر جانے کی درخواست پر بھی بہت سارے تبصرے ہوئے۔ سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کی نظرثانی کی درخواست مسترد کر دی ہے۔

ان حالات میں پہلے تو مسلم لیگ نواز نے شہباز شریف کے قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی خواجہ آصف کو بھی اسمبلی میں اہم کردار دے دیا۔

ان تبدیلیوں پر ابھی تبصرے ہو رہے تھے اور مسلم لیگ نواز کے اندرونی جھگڑوں کی داستان فی الحال مکمل نہیں ہوئی تھی کہ مسلم لیگ نے بڑے پیمانے پر تنظیم نو کا اعلان کر کے سب کو ورطہ حیرت میں داخل دیا۔

اس نوعیت کے فیصلے ایک دم نہیں ہوتے بلکہ ان کے لیے خاموش مشاورت کی جاتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا مگر بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں میں کوئی ایسا نظام نہیں ہے کہ باقاعدگی کے ساتھ تنظیم سازی کی جائے۔ یہ موقع نہیں ہے کہ ایک سیاسی جماعت اور اس کے قواعد و ضوابط پر روشنی ڈالی جائے اور پاکستان میں سرگرم سیاسی جماعتوں پر تنقید کر کے یا ان میں کیڑے نکال کر پاکستان میں جمہوریت دشمن قوتوں کو خوش کیا جائے کیوں کہ پاکستان کے دانش وروں اور صحافیوں کا ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے خلاف مستقل بنیادوں پر پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے۔

ان دانش وروں اور صحافیوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ پاکستان کے عام آدمی کو سیاست اور سیاسی جماعتوں سے متنفر کریں اور یہ بیانیہ عام کریں کہ سیاست تو ہے ہی گندا کام۔ یہ ماننا پڑے گا کہ وہ کافی حد تک اپنے اس مشن میں کامیاب ہو گئے ہیں اور آج ملک میں ایسا طبقہ موجود ہے جو کسی نہ کسی طور پر پاکستان میں ہر وقت غیر جمہوری نظام کا مطالبہ کرتا رہتا ہے اور وہ اس حوالے سے مذہب کا استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا اور جمہوریت کو غیر اسلامی نظام قرار دے ڈالتا ہے اور کچھ نہ ہو سکے تو پارلیمانی نظام کو ملک، قوم اور مذہب کے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔



میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی بالادستی قائم کرنا ایک بہت ہی مشکل اور پیچیدہ کام ہے۔ اس کے لیے پاکستان میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعتوں کو مل کر مشترکہ حکمت عملی تشکیل دینا ہو گی کیوں کہ ملک میں جمہوریت دشمن قوتیں بہت ہی منظم ہیں اور ان کا پاکستان کے ہر شعبہ میں گہرا اثر و رسوخ ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی موجودہ حکومت کے بارے میں زیادہ تبصرے نہ ہی کیے جائیں تو بہتر ہے کیوں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ سیلیکٹڈ وزیراعظم ہیں، دوسرا یہ کہ وہ جذباتی ہونے کے علاوہ ناتجربہ کار بھی ہیں اور غلطیوں پہ غلطیاں کر رہے ہیں۔

یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ پاکستان میں کوئی طاقت ایسی تھی جو ڈالر کو 150 روپے کرنے کی کوشش کر رہی تھی، اور صرف ڈالر ہی نہیں، پیٹرول، گیس اور اور بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ چاہتی تھی اور عام روزمرہ کی خورد و نوش کی قیمتوں میں تو بے پناہ اضافہ چاہتی تھی۔

پنجاب میں بلدیاتی نظام ختم کرکے وقتی طور پر تمام اختیارات نوکر شاہی کو دے دینا کسی طور پر دانشمندی نہیں ہے۔

اور سب سے اہم یہ ہے کہ امریکہ اور ایران کی کشیدگی پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس جھگڑے کے پاکستان پر براہ راست اثرات مرتب ہوں گے۔