پاکستانی نیوز چینل سوموار سے جاری تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے کو مذہبی تنظیم کا دھرنا لکھ اور بول رہے ہیں. تحریک لبیک کی جانب سے جاری مظاہروں کا بیانیہ بھی مذہبی ہے ۔ لیکن اس جماعت کی سیاسی شناخت بھی کچھ مبہم نہیں 2018 کے عام انتخابات میں اس جماعت نے کراچی سے سندھ اسمبلی کی تین صوبائی نشستیں جیتیں اور پنجاب میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے بعد اپنے کرین کے نشان کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔
تحریک لبیک کا بیانیہ بہت مقبول ہے اور مولانا خادم حسین رضوی کے بیٹے اور سیاسی جانشین سعد رضوی کی گرفتاری پر ملک بھر میں جیسا احتجاج دیکھا گیا اس نے ثابت کر دیا کہ یہ جماعت سٹریٹ پاور میں سب سے آگے ہے اور ملک کے تمام بڑے بڑے شہروں میں اسکے مظاہروں نے زندگی کا پہیہ روک کر رکھ دیا ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ مولانا خادم حسین رضوی کی وفات کے بعد انکی سیاسی و مذہبی بصیرت کا کارواں نہ صرف اسی طرح رواں دواں ہے. بلکہ اسکی مقبولیت کا گراف بھی اوپر گیا ہے۔
تحریک لبیک کے اس " چک دے پھٹے " ٹائپ کامیاب احتجاج نے جہاں اسکے سیاسی قد میں اضافہ کیا ہے وہیں بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو بغلیں جھانکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ تحریک لبیک کا دو ہی روز میں بوتل سے نکلے جن جیسے قد کاٹھ کے سامنے دیگر سیاسی جماعتوں کے ماضی قریب میں ہونے والے احتجاج بونے بونے سے لگ رہے ہیں۔
اگر اس جماعت کا سیاسی بنیادوں پر تجزیہ کیا جائے تو یہ جماعت سندھ کے اردو سپیکنگ حلقوں میں سب سے زیادہ مقبول ہے جہاں پہلے ہی انتخاب میں 3 صوبائی نشستیں جیتنے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ یہ جماعت خیبر پختونخوا میں بھی مقبول ہے لیکن جمعیت علمائے اسلام س اور ف جیسے ہیوی ویٹ کے مقابلے میں دبی دبی سی ہے ۔اسکی ایک وجہ تو فقہی ہے کیونکہ وہاں بریلوی فقہ کے ماننے والے کم ہیں مگر پنجاب اس جماعت کا اصل ہوم گراؤنڈ ہے جہاں اسکے پھلنے پھولنے کے لئے حالات بہت موافق ہیں۔ پنجاب کی اکثریت بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے اور ختم نبوت کے موضوع پر ہمیشہ سے بہت جذباتی ہے۔ جب ایسا حساس معاملہ آتا ہے تو بریلوی پنجابیوں کی اکثریت متشدد بھی ہو جاتی ہے اور اپنا نظریاتی یا سیاسی رستہ چھوڑ کر ختم نبوت کے جلوس کا حصہ بن جاتی ہے۔
سیاسی زاویہ نگاہ سے بات کی جائے تو ختم نبوت کا معاملہ پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن سے بھی زیادہ مقبول اور ہر دل عزیز ہے بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ مسلم لیگ ن کے ووٹر سپورٹر، کارکن حتی کہ لیڈرز کی ایک بڑی تعداد ختم نبوت کے معاملہ پر بہت حساس واقع ہوئی ہے۔اس جماعت میں خادم حسین رضوی مرحوم کو پارٹی ہائی کمان کی انتہائی مخالفت اور تنقید کے باوجود بہت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ن لیگ کے سپورٹرز اور ووٹرز اسے "فیض آباد کا فیض" قرار دے رہے ہیں جو ٹوئیٹر پربطور ٹرینڈ دوسرے نمبر پر رہا اور کچھ عمران خان اور شیخ رشید کے تحریک لبیک کے ان مظاہروں کے بیانات ڈھونڈھ کر سامنے لا رہے ہیں جو ن لیگ کی حکومت کے خلاف ہوئے تھے۔ پورا ملک محاصرہ میں ہے مگر حکومت کی طرف سے پر اسرار خاموشی یاد دلاتی ہے کہ " خاموشی کی بھی اپنی زبان ہوتی ہے".
نیا دور میڈیا کے مطابق اجلاس میں شریک ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ ملک اور دارلخلافہ کے سنگم پر حالات کشیدہ مگروفاقی وزیر داخلہ کا رویہ بہت نرم تھا اور وہ کسی بھی صورت مظاہرین کے خلاف سخت ایکشن لینے کی موڈ میں نہیں اور یہ کہ پولیس کے جوان مظاہرین کی رحم و کرم پر ہیں اگر اُن کو ایکشن لینے کی اجازت نہیں ملی تو وہ کسی بھی وقت اگے جانے سے انکار کرسکتے ہیں۔
دوسری طرف ن لیگ کے ٹرولرز اور ورکرز تو حکومت کو پچھلے دور میں بیجا کاٹنے کی طعنہ زنی کر رہے ہیں مگر ن لیگ بھی منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھی ہے آخر ایسی بھی کیا افتاد آن پڑی ہے کہ اپوزیشن کی ہارڈ لائینر پارٹی جو ایسے وقت میں کھل کر سیاست کر سکتی ہے حکومت کی نا اہلی پر خاموش ہے؟آخر ایسی کیا ان ہونی ہو گئی ہے کہ صورتحال کو سمجھنے اور اس پر بیانیہ ترتیب دینے کے لئے ن لیگ کے پاس الفاظ نہیں؟ موضوع کی حساسیت اپنی جگہ مگر میڈیا بھی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے۔ فردوس عاشق اعوان سے صحافی نے سوال پوچھا تو وہ کچھ نہ کہتے کہتے بھی بہت کچھ کہہ گئیں کہ " احتجاج کے معاملات کہیں بہت اوپر طے ہوئے ہیں " بس پھر کیا تھا ماہ رمضان سے ایک دن پہلے خالی دماغ میں دھڑلے سے بیٹھے شیطان نے دل میں وسوسے پیدا کرنا شروع کر دئیے۔ پٹ سے خیال آیا اوہو تو یہ ماجرا ہے یعنی حکومت چپ ہے ن لیگ بھی اور تمام اہم اور حساس ادارے ببھی یعنی تحریک لبیک کا میزائل ٹیسٹ کیا گیا ہے اور اس کروز میزائل کا ہدف ن لیگ ہے یعنی ڈیڈ لائن سے کئی دن پہلے سعد رضوی کا ویڈیو پیغام محض اتفاق ہے نہ انکی صرف چوبیس گھنٹے بعد گرفتاری اتفاق اور پھر ملک گیر مظاہرے اور اتنے منظم انداز میں پورے ملک کا بند ہو جانا؟
کیا واقعی تحریک لبیک نے غیبی طاقتوں کی مدد کے بغیر یہ سب کر لیا؟؟ یعنی ٹی ایل پی سے عمران خان یا موجودہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں یعنی یہ فسادات بہت وسیع کنٹرولڈ مگر پر اثر ہیں ۔زیادہ خون خرابے کا امکان نہیں۔ کولیٹرل ڈیمیج کے طور پر ایک مریض کے ایمبولینس میں ہلاک ہو جانے کے علاوہ ختم نبوت کے کچھ جانثاروں اور پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور وزیر داخلہ اب بھی بہت پولے پولے بیان سے خانہ پری کر رہے ہیں یعنی تحریک لبیک کے گزشتہ ریکارڈ کے مطابق کسی تیسرے فریق کے خلاف منظم سیاسی گھیراو بھی ہو سکتا یے اور وہ تیسرا فریق کوئی اور نہیں ن لیگ ہے اور پورا ملک بند کر کے تحریک لبیک نے اپنی سٹریٹ پاور کی دھاک بٹھا دی ہے اور حکومت کی طرف سے مفلوج نظم و نسق کے باوجود ایسے دوستانہ انداز سے لگتا ہے کہ تحریک لبیک کا مستقبل تحریک انصاف سے الحاق بھی ممکن ہے۔
اور احتجاجی طاقت رکھنے والی تحریک لبیک اگلے انتخابات میں ایک ہی وار سے پنجاب کے سیاسی اکھاڑے میں ن لیگ کو چاروں شانے چت کر سکتی ہے کیونکہ تحریک لبیک کا جانثار اور ن لیگ کا ووٹر دونوں بریلوی مکتبہ فکر سے ہیں اور ن لیگ کے لاتعداد ووٹر تحریک لبیک کو حق سچ پر سمجھتے ہوئے، لبیک یا رسول اللہ کا نعرہ لگاتے ہیں اس فقہی سانجھ کو سیاسی بیانیہ بننے میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگے گا دوسری طرف تحریک انصاف اور تحریک لبیک کا، سیاسی الحاق بہت فطری ہے کسی مہا پرش نے کہا تھا کہ تحریک لبیک غریبوں کی پی ٹی آئی ہے۔
مصںف پیشہ کے اعتبار سے کسان اور معلم ہیں۔ آرگینک اگریکلچر کے ساتھ ساتھ لائیو سٹاک کے شعبہ میں کام کرتے ہیں۔ ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور عرصہ 20 سال سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے منسلک ہیں۔ کرئیر کی ابتدا ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور ڈرامہ نگار کی جسکے بعد پی ٹی وی اور parallel theater کے لئیے بھی لکھتے رہے ہیں۔