قومی سلامتی اجلاس کے اعلامیے میں سازش کا ذکر نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

قومی سلامتی اجلاس کے اعلامیے میں سازش کا ذکر نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ قومی سلامتی اجلاس کے اعلامیے میں سازش کا ذکر نہیں.

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں، ہم سیاست سے باہر ہی رہنا چاہتے ہیں، فیصلے قانون پر چھوڑ دیں، آج اداروں کو مضبوط بنائیں۔ تعمیری تنقید مناسب، بے بنیاد کردارکشی کسی صورت قابل قبول نہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی نے کہا کہ افواج پاکستان اور لیڈرشپ کیخلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے دشمن کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا تو اب بھی نہیں ہونے دیں گے۔

عمران خان نے فوج سے رابطہ کرکے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی بات کی

ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں صدر کے چیمبر میں دو اعلیٰ افسران کی ملاقات سے متعلق مجھے کوئی علم نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی آپشن نہیں دیا تھا، ڈیڈ لاک کے دوران وزیراعظم آفس سے آرمی چیف سے رابطہ کیا گیا کہ بیچ بچاؤ کی بات کریں، ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت آپس میں بات کرنے پر تیار نہیں تھی جس پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وہاں گئے، مختلف رفقا سے بیٹھ کر تین چیزیں ڈسکس ہوئیں کہ کیا کیا ہوسکتا ہے، ان میں وزیراعظم کا استعفیٰ، تحریک عدم اعتماد واپس لینا اور وزیراعظم کی طرف سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا آپشن تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ تیسرے آپشن پر وزیراعظم نے کہا کہ یہ قابل قبول ہے، ہماری طرف سے اپوزیشن سے بات کریں جس پر آرمی چیف پی ڈی ایم کے پاس گزارشات لے کر گئے اور ان کے سامنے یہ گزارش رکھی جس پر سیر حاصل بحث ہوئی لیکن اپوزیشن نے اس پر کہا کہ ہم ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے۔

امریکہ کی طرف سے کوئی سازش نہیں ہوئی

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے میں جو لکھا گیا وہی فوج کا موقف ہے، انہوں نے کہا کہ اجلاس کے میٹنگ منٹس حکومت کا استحقاق ہے کہ وہ اسے پبلک کریں یا نہ کریں۔

امریکہ کی جانب سے ہوائی اڈے مانگے جانے کی سوال میں انہوں نے کہا کہ امریکہ نے کوئی اڈے نہیں مانگے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے 9 اپریل کی رات سے متعلق بی بی سی اردو کی اسٹوری پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے سب باتیں بالکل جھوٹ ہیں ، بی بی سی نے بہت ہی واحیات اسٹوری شائع کی، اس سے بڑا جھوٹ کسی انٹرنیشنل لیڈنگ ایجنسی کی طرف سے نہیں ہوسکتا، یہ ایک مکمل من گھڑت اسٹوری تھی ایسا کچھ نہیں ہوا۔

ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ توسیع مانگ ہے ہیں اور نہ اسے قبول کریں گے وہ 29 نومبر 2022 کو وقت پر ریٹائر ہوں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، کوئی ضمنی انتخاب کوئی بلدیاتی انتخاب اٹھالیں، کوئی مداخلت نہیں، پہلے کہا جاتا تھا کالز آتی ہیں، اگر کوئی ثبوت ہے مداخلت کا تو سامنے لائیں۔

شہباز شریف کی بطور وزیراعظم تقریب حلف برداری میں آرمی چیف کے شریک نہ ہونے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آرمی چیف کی اس روز طبیعت ٹھیک نہیں تھی، وہ آفس بھی نہیں آئے تھے۔

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ دو روز قبل آرمی چیف کی زیر صدارت فارمیشن کانفرنس ہوئی جس میں پاک فوج کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں پر انہیں بریفنگ دی گئی، سال کے پہلے تین ماہ کے دوران 128 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، اس دوران کئی جوان شہید ہوئے، پوری قوم بہادر سپوتوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔

عمران خان کے دعوے کے برعکس امریکہ نے اڈے مانگے ہی نہیں

ڈی جی آئی ایس پی آر بابر افتخار نے میڈیا بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں وزیراعظم سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا تھا کہ اگر اڈے مانگے گئے تو پھر کیا ہوگا تو وزیراعظم نے جواب دیا تھا کہ بالکل نہیں دئیے جائیں گے۔ اگر اڈے مانگے جاتے تو فوج کا بھی وہی موقف ہوتا جو وزیراعظم کا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ فوجی اڈوں کا مطالبہ کسی بھی سطح پر نہیں کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیف آف آرمی سٹا ف جنرل قمرجاوید باجوہ نہ تو توسیع لینے کی خواہش رکھتے ہیں اور نہ ہی قبول کریں گے ، چاہے کچھ بھی ہو ،آرمی چیف 29 نومبر 2022 کو ریٹائر ہو رہے ہیں،بغیر ثبوت کوئی بات کرنا کردارکشی کے مترادف ہے ۔