انسانی تاریخ نگاری کا یہ معمول رہا ہے کہ اس کے کئی بیانیے ہوا کرتے ہیں۔ یہ بیانیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی خواہشات اور مفاداتی حقیقتوں کے مطابق تبدیل بھی ہو رہتے ہیں۔ ویسے تو ان تاریخی بیانیوں پر تاریخ دان اور دانشور بحث کرتے ہیں اور اس پر اپنی آرا کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن جب یہ تاریخی واقعات اور حقائق سیاسی بیانیوں کا حصہ بنتے ہیں تو پھر طاقت اور اقتدار کے حصول کے لئے ان کو من مرضی کے مطابق ڈھالنا عام سیاسی شعبدوں میں سے ایک ہے۔
جب سے قومیت کی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیل کا سلسلہ شروع ہوا ہے، ریاستیں اپنا وجود مضبوط کرنے کے لئے عموماً ایک قومی تشخص تشکیل دینے کی کوشش کرتی ہیں اور ان میں تاریخ کی ایسے کتر بیونت کی جاتی ہے کہ عوام کو یہ باور ہو جائے کہ آج سے ہی نہیں ماضی میں بھی تراکیب عناصر ایسی ہی رہیں کہ اس ریاست کا وجود اور اس کا دوام ہی قدرت کا منشا تھا۔ اور پھر یہی قومیت پر مبنی تشخص کی خلاف ورزی فرد کے لئے جرم قرار پاتی ہے۔ اکثر یہ واردات وہاں ڈالی جاتی ہے جہاں کی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے لئے تنوع پر مبنی قومی ڈھانچے کی نفی اور یک شناختی معاشرتی ڈھانچہ کھڑا کرنا مقصود ہو۔ پاکستان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ جہاں تاریخ کو کانٹ چھانٹ کر بے سر و پا اور غیر صحتمندانہ طور پر صرف اس لئے پیش کیا گیا کہ ریاست کے قیام اور شناخت کا تاریخی جواز مل سکے۔
پاکستانی قومی تشخص میں پاکستان کا خواب دیکھنے کا بنیادی کام علامہ اقبال سے منسوب ہے۔ مفکر پاکستان نے 29 دسمبر 1930 کو الہٰ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں جو خطبہ دیا تھا اس میں انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا یہ مطالبہ قطعاً منصفانہ ہو گا کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم انڈیا قائم کیا جائے۔ میں دیکھنا پسند کروں گا کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست میں ضم کر دیا جائے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ سیلف گورنمنٹ خواہ یہ سلطنتِ برطانیہ کے اندر ہو یا سلطنتِ برطانیہ کے باہر ہو اور ایک مربوط شمال مغربی ہندی مسلم ریاست کی تشکیل بالآخر مسلمانوں کی یا کم از کم شمالی مغربی ہند کے مسلمانوں کی تقدیر ٹھہرے گی۔‘ اقبال کے اس تصور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے پاکستان کا تصور اس میں دیا گیا تھا۔
دوسری جانب ایسے محققین و تاریخ پاکستان کے ماہرین بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ علامہ کے اس خطبے میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے کسی آزاد اور خود مختار اسلامی مملکت کا تصور نہیں پیش کیا گیا تھا بلکہ ایک ڈھیلے ڈھالے وفاق کے اندر ایک مسلم ریاست کا تصور دیا گیا تھا۔ اس میں آسام کے مسلم اکثریتی علاقوں، بنگال اور کشمیر کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
لیکن اس حوالے سے ایک اور دلچسپ اور چشم کشا انکشاف سینیئر صحافی سجاد اظہر نے اپنے دی انڈیپنڈینٹ اردو کے لئے لکھے گئے کالم میں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا تصور علامہ اقبال سے پہلے کانگریس کے رہنما لالہ لاجپت رائے نے دیا تھا۔
انہوں نے لکھا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ‘ از زاہد چوہدری میں درج ہے کہ ’لالہ لاج پت رائے نے 1924 میں لاہور کے ایک اخبار ’ٹربیون‘ میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں پہلی مرتبہ برصغیر کی فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا، جس کے مطابق مسلمانوں کی چار ریاستیں ہوں گی، صوبہ سرحد، مغربی پنجاب، سندھ اور مشرقی بنگال۔ اگر ہندوستان کے کسی اور علاقے میں مسلمانوں کی اتنی تعداد یکجا ہو کر ان کا صوبہ بن سکے تو ان کی بھی اسی طرح تشکیل ہونی چاہیے۔ لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یہ متحدہ ہندوستان نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان واضح طور پر مسلم انڈیا اور غیر مسلم انڈیا میں تقسیم ہو گا۔‘
اس منصوبے میں بلوچستان کا ذکر نہیں تھا۔ یہ حقیقت دلچسپی سے خالی نہیں کہ 1947 میں جو پاکستان وجود میں آیا وہ لالہ لاج پت رائے کے منصوبے کے عین مطابق تھا۔ اس لئے ایک رائے یہ بھی دی جاتی ہے کہ تصور ِ پاکستان کا ابتدائی خالق علامہ اقبال نہیں بلکہ آریہ سماج کا ایک ہندو رہنما لالہ لاج پت رائے تھا۔
سجاد اظہر نے لالہ لاج پت رائے کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ لالہ لاج پت رائے کی کتاب ’ینگ انڈیا‘ مطبوعہ 1916 میں مصنف کے تعارف کے طور پر لکھا ہے کہ لالہ لاج پت رائے 1865 میں پیدا ہوئے۔ لاہور میں وکالت کی اور پھر آریہ سماج سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے لاہور سے ہفت روزہ پنجابی ’آریہ گزٹ‘ جیسے اخبارات شروع کیے۔ 1914 میں وہ وکالت ترک کر کے ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں شامل ہو گئے۔ انہیں انگریز حکومت کی مخالفت کے باعث کئی بار پابند سلاسل کیا گیا۔
1917 میں انہیں خفیہ طور پر غائب کر کے برما میں چھ ماہ تک قید رکھا گیا۔ ان پر غداری اور بغاوت کا الزام تھا، مگر بعد ازاں انہیں بری کر دیا گیا۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران وہ امریکہ چلے گئے جہاں ہندوستان کی آزادی کے لئے 32 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز تیار کی جسے امریکی سینیٹ میں بحث کے لئے منظور کر لیا گیا۔ 1919 میں واپس انڈیا آئے۔ 1920 میں انہیں کلکتہ میں انڈین نیشنل کانگریس کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ 1921 سے 1923 کا عرصہ انہوں نے جیل میں گزارا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب انہوں نے یہ تصور دیا۔
سجاد اظہر نے لکھا کہ علامہ اقبال کے خطبہ الہٰ آباد سے پہلے 30 دسمبر 1929 کو مسلم لیگ کے رہنما نواب ذوالفقار علی خان شمالی ہند اور مشرقی بنگال میں ایک مسلم صوبے کے قیام کی بات کر چکے تھے لیکن مسلمانوں کے لئے ایک وطن کا تصور سب سے پہلے لالہ لاج پت رائے نے ہی دیا تھا۔
اس حوالے یہ حوالہ بھی کالم میں دیا گیا ہے کہ تحریک پاکستان کے نامور رہنما ایم اے ایچ اصفہانی (بحوالہ ’زندہ رود‘ از ڈاکٹر جاوید اقبال) نے بھی لکھا ہے کہ ’بلاشبہ علامہ اقبال کی فکر، شاعری اور خطبات اس سمت اشارہ کرتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ وہ مسلم ریاست کے تصور کے خالق تھے، تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے