پاکستان کی منزل کیا؟

 پاکستان کی منزل کیا؟
 

بے سمت منزلوں کے مسافر کہیں نہیں پہنچتے۔ چاہے یہ مسافر فرد ہوں، قافلے ہوں، یا قومیں ہوں۔ ہم سینہ تان کر دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں۔ لیکن جب دنیا ہم سے ہمارے بارے میں پوچھتی ہے تو ہم بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ سوال زیادہ تنگ کریں تو آپس ہی میں گتھم گتھا ہو کر ایک دوسرے کو الزام دے کر سمجھتے ہیں کہ پاکستانیت کا حق ادا ہو گیا۔

قافلہ اگر چلا نہیں تو قصور کس کا ہے؟ قافلے کے نہ چلنے کے سبب یہ ایک نیا جھگڑا پھوٹ پھڑا ہے۔ ہمارے ساتھی قافلے والے اور ہمارے بعد رہائی پانے والے اپنی اپنی سمت کا تعین کر کے خراماں خراماں چل نکلے۔ اور ہم۔۔۔؟ ہم ابھی تک اِسی مُعّمے کو حل نہیں کر پائے ہیں کہ آخر اس قافلے کی، جس کا نام پاکستان ہے، سمت کیا ہے؟

اب سمت کا تعین منزل کرے گی اور سالارانِ قافلہ شش و پنج میں ہیں کہ اس تہتر سالہ قوم کی منزل کیا ہونی چاہیے۔

خدا میرے پاکستان کو تاقیامت آباد و شاد رکھے۔ آج اس کا تہترواں جنم دن ہے اور قوم اس یوم کو پورے جوش و خروش سے منا رہی ہے۔ گلیاں بازار سبز ہلالی پرچم سے سج دھج کر دلہن بنے ہوئے ہیں۔ فیض کی طرح پابجولاں چلتے ہوئے اس وطن کی گلیوں پہ نثار ہونے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن اب شاعرانہ تعلیّ کا وقت گزر چکا۔ اب یہ پوچھنا بنتا ہے کہ آخر ایسا کیا ہو گیا کہ انسانوں کو بے جرم سرزمینِ پاک میں پابجولاں ہونا پڑے؟

سب سے پہلا سوال جو اس موقع پر پاکستانیوں کو دعوتِ فکر دیتا ہے وہ ہماری قومی شناخت کا مُعّمہ ہے۔ مُلکِ پاکستان، ایران، بھارت، افغانستان، اور چین ایسے ممالک کے درمیان گِھرا ہوا ہے۔ یہ چاروں ممالک اور ان کے شہری ایک قدیم اور قدآور تاریخی میراث رکھتے ہیں۔ ایران کی تہذیب و تمدن نے عالم انسانیت پہ انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ چین کی تاریخ ہزاروں سالوں پہ محیط ہے اور اس کا آرٹ و کلچر ساری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ اسی طرح قدیم ہندوستان کی ایک زبردست تاریخ ہے۔ اور اہل افعانستان بجا طور پہ اپنے ماضی اور اپنی تاریخی اہمیت پہ فخر کرنے کے اہل ہیں۔

چنانچہ یہ سوال ہم پاکستانیوں کے لئے بہت اہم ہے کہ ہماری تاریخ کیا ہے؟ ہم کس تہذیب کے فرزند و دختران ہیں؟ ہم کون ہیں؟ اور ہمارے آبا و اجداد کیا تھے؟ یہ سوال اس لئے بھی ضروری ہے کہ ایک قومی تشخص کے بغیر ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا نہیں کر سکیں گے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں ایسی اقوام بستی ہیں جن کی تاریخ ایک دوسرے سے جداگانہ اور ہزاروں برسوں پہ پھیلی ہوئی ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ان مختلف النوع قوموں کو 'پاکستانیت' میں ایک ایسی شناخت ملے جو اِنہیں اِن کے تاریخی ورثے سے جُدا کیے بغیر متحد و یکجا رکھ سکے۔

جب یہ سوال طے ہو جائے گا تو پھر اگلا سوال یہ اُٹھے گا کہ ہم اپنی قوم کو کس سمت میں لے کر چلیں گے۔

کیا ہم بنو اُمیہ اور بنو عباس کی طرز پہ خلافت کی آڑ میں شخصی بادشاہت کا نظام چاہتے ہیں یا پھر عصر حاضر کی ترقی یافتہ اقوام کی طرح پاکستان کے شہریوں کے لئے بھی ایک جمہوری اور انسان دوست قومی بیانیہ ترتیب دینا زیادہ مناسب ہوگا؟

اس کا جواب ڈھونڈنا زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ ہم نے گذشتہ سات دہائیوں میں مذہب کے نام پہ ایک بیانیہ تشکیل دیا مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علما اور اسٹیبلشمنٹ کا ایسا گٹھ جوڑ بنا جس نے عوام کو جہالت اور ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔

اس بیانیہ کے نتیجے میں ہماری سیاست اتحاد کی بجائے تفریق کی ڈگر پہ چلی گئی اور معاشرہ منافرتوں اور منافقتوں کی نذر ہو گیا۔ آج ہماری ریاست عملاً اِن انسان دشمن قوتوں کے سامنے بے بس ہے اور معاشرہ اخلاقی پستی میں گرتا چلا جا رہا ہے۔

تہتر برس بعد کا پاکستان ایسی غاصبانہ قوتوں کے نرغے میں ہے جن کا تسلط ملک کے ایک ایک ادارے پر ہے اور جو پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار ہیں مگر اِنہوں نے بڑی چالاکی سے عوام کی کثیر تعداد کو یہ بات باور کرا دی ہے کہ ہم تو بڑے معصوم اور مُحّبِ وطن ہیں جب کہ پاکستان کے اصل دشمن تو صحافی، سیکولر اور انسانی حقوق کے علمبردار دانشور ہیں۔ حالانکہ تاریخی و زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔

آج پاکستان کا 73 واں یومِ پیدائش ہے۔ اور ایک فکرمند پاکستانی کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی تاریخ اور اپنے حال کا دیانت داری سے جائزہ لیں تا کہ ہم پاکستانی ایک متحد قوم کی حیثیت سے تاب ناک مستقبل کی طرف گامزن ہو سکیں۔

پاکستان۔۔۔ زندہ باد!

خدا کرے میری ارض پاک پہ اُترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو