Get Alerts

"تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیئے اے ارض وطن"، حیات ایک بلوچ کی۔۔۔

13 اگست 2020 ، مملکتِ خدادِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ضلع تربت۔ یہاں کی مشہور شاہراہِ آبسر کے بیچ و پیچ جشن آزادی کا پریڈ مارچ رواں دواں ہے۔ جلوس کے چند میٹرز کے فاصلے پر حیات بلوچ اور اسکے ماں باپ ٹھیکے پر لئے گئے کھجور کے باغ میں محنت مشقت کرنے میں مگن ہیں اور ایک دوسرے سے محوِ گفتگو ہیں۔

حیات بلوچ: ابو میں پرسوں واپس کراچی جارہا ہوں۔ کرونا وائرس تھم گیا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ ماہِ ستمبر تک یونیورسٹی کھل جائے گی۔ ہمارے علاقے میں انٹر نیٹ نا ہونے کے سبب پڑھائی کا بہت حرج ہو چکا ہے۔ کراچی پہنچ کر وہاں رہنے کو نئی جگہ ڈھونڈنی ہے اور مزید پڑھنا ہے وگرنہ میں اپنے ان ہم جماعتیوں سے پیچھے رہ جاؤں گا جو شہروں میں آن لائن کلاسیں لینے میں کامیاب رہے۔

ابا:ہاں تمہاری بہن بتا رہی تھی کہ تمہارا بستہ( سامان / زادراہ) باندھ دیا ہے۔ بس مجھے یہ بتاؤ کہ تمہاری پڑھائی کب ختم ہوگی،مہنگائی کے باعث حالات بگڑ رہے ہیں۔ بس پڑھائی جلدی سے مکمل کرو اور گھر چلانے میں ہماری مدد کرو۔

اماں: جو بھی ہو، اچھا ہوگیا کہ کرونا کی وجہ سے ہی سہی مگر کافی سالوں بعد تم اتنا لمبا عرصہ ہمارے ساتھ گھر پر رہے ہو، کام میں بھی ہاتھ بٹاتے رہے ہو۔ بس میرا بیٹا دل لگا کر پڑھنا۔ میں چاہتی ہوں تم جلدی سے پڑھائی مکمل کرو، نوکری ڈھونڈو اور شادی کرلو۔ مرنے سے پہلے میں اپنی ساری ذمہ داریاں پوری کرنا چاہتی ہوں"

حیات بلوچ: اماں نوکری ملنا اب آسان نہیں رہا، بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ مجھے ڈگری پورے ہوتے ہی سی ایس ایس کرنا ہے کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کہ ہماری زندگی بہتر ہو سکے۔

ابا: بس بیٹا! جو کرنا ہے جلدی کرو، ساری ذمہ داریاں تم اکیلے پر ہیں ۔۔۔۔۔

(یکدم ایک زور دار دھماکے کی آواز گونجی)

حیات بلوچ: ابا یہ کیا ہوا، یہ آواز کیسی ہے؟

 ابا: کل جشنِ آزادی ہے تو اسکی پریڈ ریلی یہاں سے گزرنا تھی شاید ادھر کسی نے پٹاخہ پھوڑا ہو۔

حیات بلوچ : ابا اگر دھماکہ ہوا تو؟

 ابا: یہاں دھماکے اور گولیاں کھلِ عام چلتی ہیں۔ ہم یہاں رہتے زندگی اپنے ایک ہاتھ پر رکھ کر جیتے ہیں، موت کا نہیں معلوم کس لمحے آجائے ویسے بھی ہم مجرم تھوڑی ناں ہیں جو بھاگتے رہیں۔

اماں: ہاں بیٹا بس ہمیں اس اذیت سے نکالو اور کسی اچھی اور کسی پر اُمن جگہ پر نوکری ڈھونڈو ۔ ہم سب وہیں چلے جائیں گے یہاں دن بدن حالات مزید بگڑتے جارہے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ نوجوان لڑکوں کو اٹھا کر غائب کیا جارہا ہے اور انکی مائیں اور بہنیں احتجاج۔۔۔

حیات بلوچ: بس اماں، ہمیں اس جھنجھٹ سے دور رہنا ہے۔ میں تو اپنی یونیورسٹی میں بھی دوستوں کو کہتا ہوں کہ احتجاج میں کیا پڑا ہے، وہ روزانہ پریس کلب کسی نا کسی احتجاج میں جاتے ہیں۔ میں تو سب کو کہتا ہوں کہ پڑھ لکھ کر اپنے ماں باپ کا سہارا بنو اور اپنی دنیا و آخرت۔۔۔۔۔۔۔

"یہ آواز کیسی ہے، لگتا ہے بہت سے آدمی اس طرف آرہے ہیں"

(فرنٹئیر اہلکار سرچ آپریشن کرتے باغ میں پہنچ جاتے ہیں اور حیات کو زد و کوب کرنا شروع کر دیتے ہیں)

فرنٹئیر اہلکار: پکڑو اسے۔۔۔۔اور باہر لیکر چلو۔۔۔

 ابا: کیا ہوا اس نے کیا کِیا ہے؟

 اماں:ارے یہ تو معصوم ہے۔۔۔

 ایف سی اہلکار (دوسرے سے مخاطب ہوتے ہوئے): اس کی آنکھیں باندھو۔ کپڑا کہاں ہے؟

(دوسرا ایف سی اہلکار اسکی ماں کا دوپٹہ چھین کر حیات کی آنکھوں میں باندھ دیتا ہے اور حیات کو گھسیٹتے ہوئے باہر سڑک پر لے جایا جاتا ہے ،حیات کو گھٹنوں کے بل الٹا بیٹھ جانے کو کہا جاتا ہے)

 ایف سی اہلکار: بولو اور تسلیم کرو کہ یہ دھماکہ تم نے کیا ہے؟  گناہ قبول کرو ورنہ گناہ کرنے والے کو تلاش کرو۔

حیات بلوچ : میں مجرم نہیں ہوں اور نا مجھے کسی کا معلوم ہے۔

(ماں باپ چِلا رہے ہیں ، عینی شاہدین تمام واقعہ اپنوں آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور حیات بندوق کے نوک پر اپنی بے گناہی کی دلیلیں دے رہا ہے)

یکدم حیات پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے اور اس کے جسم پر آٹھ فائر داغے جاتے ہیں۔

باپ روتے ہوئے چلاتا ہے مجھے بھی مار دو۔۔۔

ماں یوں جیسے ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی۔۔۔

حیات کا چھوٹا بھائی آدھے گھنٹے بعد گھر آ کر بتاتا ہے کہ حیات کو قتل کر دیا گیا۔ گھر صفِ ماتم بن گیا اور بہن اسکا بستہ سینے سے لگا کر بین کر رہی ہے۔

عینی شاہدین کی گواہی اور مقتول کے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔ انکوائری کے بعد فرنٹئیر کور نے اس ماورائے عدالت قتل کی ذمہ داری قبول کی اور واقعے میں ملوث فرنٹئیر اہلکار کو حوالۂ پولیس کر دیا گیا۔ گولیوں سے چھلنی جسم کو پوسٹ مارٹم کے بعد رات دیر گئے دفنا دیا گیا۔

13 اگست کی رات کو جب ماورائے عدالت قتل کا شکار حیات بلوچ کی گولیوں سے چھلنی لاش کو دفنایا جارہا تھا، عین اسی لمحے لاہور کے لبرٹی چوک، اسلام آباد کے سینٹورس ٹاور، کراچی کے کلفٹن اور پشاور کے صدر بازار میں حیات بلوچ ہی کے ہم عمر نوجوانوں نے آزادی کا جشن منایا۔ منچلوں نے ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے ، باجوں اور بھنگڑے سے فرنٹئیر کورز کے نوجوانوں کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ ٹی وی پر حیات کے قتل کی خبروں کی بجائے 'اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں' ملی نغمہ چلایا گیا ، تمام صحافی جشن آزادی کی تیاریوں کی خبریں رپورٹ کرتے رہے مگر پریس کلب کے باہر بیٹھے بلوچ گمشدہ افراد کے اہل و عیال پر کسی رپورٹر کی نگاہ نہ پڑی۔

صبحِ آزادی 14 اگست:  حیات کے رشتہ دار اور اہلِ خانہ اس ماورائے عدالت قتل کے خبر کی امید لگائے ٹی وی کے چینلز تبدیل کرتے رہے۔ اس ٹی وی پر تمام ٹی وی اینکرز، سیاستدان اور فوجی افسران سفید اور سبز رنگ پہنے، حیات کے والدین کو خطاب کرتے ہوئے مخاطب ہیں کہ

"آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے مبارک ہو تمہارا بیٹا اس ملک سے آزاد ہوگیا، جشن آزادی مبارک"

(یہ افسانہ نہیں بلکہ حقائق پر مبنی ایک کہانی ہے  جومقتول کے اہل وعیال، عینی شاہدین اور قریبی دوستوں سے باضابطہ انٹرویو کر کے لکھی گئی ہے)

بقول فیض۔۔۔

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیئے اے ارض وطن۔۔۔

جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلنار کریں۔۔۔

کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا۔۔۔

کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں۔۔۔

حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔