افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور بڑے شہروں پر ان کے قبضے کے دعوؤں کے بعد ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے پیغام میں افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ مسلح افواج کی تنظیم نو ان کی اولین ترجیح ہے۔اس خصوصی ویڈیو پیغام میں صدر غنی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اندرون و بیرون ملک وسیع مشاورت شروع کر دی ہے اور نتائج جلد عوام کے ساتھ شیئر کیے جائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ملک عدم استحکام سے دوچار ہے اور ’میری کوشش ہوگی کہ ملک کو مزید عدم استحکام، تشدد اور لوگوں کو بے گھر ہونے سے بچایا جائے۔‘ صدر غنی نے کہا کہ ’میں اس بات کی اجازت نہیں دوں گا کہ افغان شہریوں پر جنگ مسلط کی جائے جس سے ان کی جانیں ضائع ہوں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’20 سال میں جو کچھ حاصل ہوا اسے گنوا دیا جائے، لوگوں کے املاک کو نقصان پہنچایا جائے اور مزید عدم استحکام بڑھے، میں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔‘
افغان صدر کے استعفے کی افواہوں کے برعکس انھوں نے اس ویڈیو پیغام میں ایسی کوئی بات نہیں کی۔ مگر اس پیغام کے دوران ان کے چہرے پر تناؤ دیکھا جاسکتا تھا۔
افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کی صورتحال
طالبان اب کابل سے صرف 50 کلومیٹر (30 میل) کے فاصلے پر ڈیرے ڈال چکے ہیں اور دارالحکومت پر حملے سے قبل امریکا اور دیگر ممالک اپنے شہریوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ مزار شریف کے ارد گرد بھی شدید لڑائی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جہاں سابق نائب صدر عبدالرشید دوستم نے اپنی طالبان مخالف ملیشیا جمع کر رکھی ہے۔