شوکت صدیقی کیس: سپریم کورٹ نے فیض حمید سمیت دیگر کو فریق بنانے کیلئے مہلت دیدی

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے اگر آپ کسی پر الزام لگا رہے ہیں تو اتنا تو ہونا چاہیے کہ ہم انہیں بھی سُنیں۔ ہو سکتا ہے وہ آکر مان لے اور ہو سکتا ہے وہ آکر اپنا کوئی مؤقف پیش کرے۔ میرا اصول ہے کہ جس پر الزام لگاؤ اس کو بھی سنو ہو سکتا ہے وہ الزامات کو تسلیم کر لے۔ اگر کسی شخص کو فریق نہیں بناتے تو اس شخص کا نام مت لیجیے گا۔

شوکت صدیقی کیس: سپریم کورٹ نے فیض حمید سمیت دیگر کو فریق بنانے کیلئے مہلت دیدی

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے برطرف جج شوکت عزیز صدیقی کو کیس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سمیت مزید فریقین بنانے کی اجازت دیتے ہوئے ایک روز کی مہلت دیدی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت بھی لارجر بینچ میں شامل ہیں۔

کیس کی کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر لائیو دکھائی جارہی تھی۔ 

شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے روسٹرم پر آکر کہا کہ کیس میں بینچ تبدیل ہوگیا ہے، اس سے پہلےجسٹس عمر عطا بندیال بینچ میں تھے، جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجازالاحسن بھی بینچ میں تھے، مجھے اس بینچ میں بھی کسی پر اعتراض نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہم اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہتے جبکہ باقی ججز ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن میں نے بینچ سے کسی کو نہیں ہٹایا۔ بینچوں کی تشکیل اتفاق رائے یا جمہوری انداز میں ہو رہی ہے۔ 

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بن چکا ہے۔ افسوس کی بات ہے آج کل ہر کوئی فون اٹھا کر صحافی بنا ہوا ہے۔ صحافیوں کو بھی دیکھنا چاہیے کہ قانون کے مطابق بینچزبنتے ہیں۔ موبائل پکڑ کر ہر کوئی صحافی نہیں بن جاتا بلکہ صحافی کا بڑا درجہ ہوتا ہے۔ ملک میں جمہوریت آ رہی ہے تو عدلیہ میں بھی جمہوریت آ رہی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ سرکارکی طرف سے کون ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل جاوید وینس روسٹرم پر آگئے۔

وفاقی حکومت نے شوکت عزیز صدیقی کی درخواستیں قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا شوکت عزیز صدیقی کی درخواستیں قابل سماعت ہونے کی مخالفت کرتے ہیں۔

حامد خان نے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ پڑھ کر عدالت کو سنایا اور بتایا کہ ان کے سائل کو کہا گیا کہ اگر آپ نے ان کی خواہش کے مطابق فیصلہ سنا دیا تو آپ کو چیف جسٹس بنا دیا جائے گا۔ جس پر چیف جسٹس نے حامد خان کو ٹوکتے ہوئے کہا اگر آپ کسی پر الزام لگا رہے ہیں تو اس کو آپ کو پارٹی بنانا چاہیے۔ حامد خان بولے ہمیں اُس وقت موقع نہیں دیا گیا تھا۔  چیف جسٹس نے کہا اب تو آپ کے پاس موقع بھی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے اگر آپ کسی پر الزام لگا رہے ہیں تو اتنا تو ہونا چاہیے کہ ہم انہیں بھی سُنیں۔ ہو سکتا ہے وہ آکر مان لے اور ہو سکتا ہے وہ آکر اپنا کوئی مؤقف پیش کرے۔ میرا اصول ہے کہ جس پر الزام لگاؤ اس کو بھی سنو ہو سکتا ہے وہ الزامات کو تسلیم کر لے۔ اگر کسی شخص کو فریق نہیں بناتے تو اس شخص کا نام مت لیجیے گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا تباہی یہ ہے کہ ہم شخصیات کو برا نہیں کہتے اور ادارے کو برا کہتے ہیں۔ ادارے تو وہی رہتے ہیں۔ادارے کو لوگ چلاتے ہیں۔ اداروں میں اچھے اور برے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی عدالت میں کچھ بھی بول دیتے ہیں بعد میں فیصلہ لکھنے میں احتیاط کرتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا آپ کا الزام ایک شخص پر ہے یا ادارے پر؟ جس پر حامد خان نے کہا میں نے متفرق درخواست میں فیض حمید اور آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر کا گھر آنے کا ذکر کیا ہے۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا جب آپ کا الزام ایک فرد پر ہے تو اسے فریق تو بنائیں۔

سپریم کورٹ نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سمیت دیگر کو کیس میں فریق بنانے کے لیے ایک روز کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت کل ساڑھے 10 تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں جولائی 2018 میں ایک تقریر کی تھی جس میں انہوں نے آئی ایس آئی پر تنقید کی تھی جس پر انہیں برطرف کر دیا گیا تھا۔

جج شوکت عزیز صدیقی نے برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے۔