ویلنٹائنز ڈے پر پچھلے کچھ برسوں میں قدامت پرست حلقوں کی جانب سے اس کے خلاف ایک منفی قسم کی مہم جاری و ساری ہے۔ اس مرتبہ فیصل آباد کی ایک یونیورسٹی سمیت کئی حلقوں نے اس دن کو بہن بھائیوں کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ حیرت ہے کہ نفرت اور شدت پسندی کا زہر پھیلانے والوں کو نہ تو میڈیا پر آنے سے منع کیا جاتا ہے اور نہ ہی شدت پسندی کی روک تھام کے لئے خاطر خواہ اقدامات ہی کیے جاتے ہیں۔ محسوس کچھ یوں ہوتا ہے جیسے ہم نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ زندگی کی رمق سے منہ موڑتے ہوئے آنے والی نسلوں کو بھی منافقت اور زندگی کے قہقہوں سے محروم کرنے والی سوچ عطا کریں گے۔
ویلنٹائنز ڈے محبت کرنے والوں کے دن کے طور پر پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کی تاریخی حیثیت ایک شخص سینٹ ویلنٹائن سے منسوب ہے جس کی تاریخ آپ بہ آسانی گوگل پر سرچ کر سکتے ہیں یا وکی پیڈیا پر پڑھ سکتے ہیں۔ جب سے دنیا سمٹ کر ایک گلوبل گاؤں بنی ہے، تب سے اس جدید گاؤں کی خوشیاں اور غم ایک دوسرے کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔ ٹھیک جیسے اگر کسی گاؤں میں کسی کی شادی ہو یا کسی کی وفات ہو جائے تو پورا گاؤں خوشی کو مناتا ہے اور غم میں سوگوار ہوتا ہے اور کسی کی بھی خوشی یا غمی میں شرکت کرتے ہوئے اس کی ذات پات یا عقیدے کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=rhzTNZJsoKw
جدید دنیا کی مثال بھی ایسے ہی گاؤں کی ہے۔ ذرائع مواصلات اور ذرائع ابلاغ میں بے پناہ ترقی کے بعد مختلف تہذیبوں کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آ چکے ہیں۔ ایک دوسرے سے مکالمہ کرتے ہیں ایک دوسرے سے اپنے اپنے تجربات، مشاہدات اور عادات و خیالات کا اثر لیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ٹیکنالوجی اور مواصلاتی نظام نے ایک نئی تہذیب اور ثقافت کو جنم دیا ہے جو کسی بھی قسم کے تعصب اور فرسودہ خیالات کو نہ مانتے ہوئے اس وقت زور و شور سے پنپ رہی ہے۔
دنیا میں مدرز ڈے منایا جائے یا تعلیم کا عالمی دن، تمام ممالک ان مخصوص دنوں کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق مناتے ہیں۔ اسی طرح ویلنٹائنز ڈے بھی پوری دنیا میں محبت کرنے والوں کے لئے ایک اہم تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے جس میں پیار کرنے والے ایک دوسرے کو تحائف دے کر یا کسی تفریحی مقام پر جاکر کچھ لمحوں کے لئے حالات و واقعات کی گردشوں کو بھلا کر محبت کے دامن میں کچھ دیر کو سر چھپاتے ہیں۔
ہمارے یہاں بھی اس دن کو پیار کرنے والے افراد دیگر دنیا کے ممالک کی طرح مناتے ہیں۔ چاکلیٹ، پھول اور مختلف تحائف ایک دوسرے کو بانٹتے ہیں۔ خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ ویلنٹائنز ڈے کیوں منایا جاتا ہے۔ انہیں غرض ہے تو چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سیلیبریٹ کر کے خوشگوار یادیں بنانے سے، اور زندگی کی مسلسل تھکا دینے والی اس جہد مسلسل سے چند لمحے چرا کر مسکانیں اور خوشیاں بانٹنے سے۔
https://www.youtube.com/watch?v=FVQeCUSc1fw
ایسا معاشرہ جہاں خوف و ہراس کے سائے پہلے ہی سے گہرے ہوں، روایات اور رواج انسانی جان سے بھی بڑھ کر مقدم ہوں بھلے ہی وہ کتنے فرسودہ اور کھوکھلے کیوں نہ ہوں، ایسے معاشرے میں اس دن کو منانے والے یقیناً حبس کے موسم میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہوتے ہیں۔ ویلنٹائنز ڈے کو لے کر کچھ حضرات اور جماعتیں خوب دہائیاں دے کر اس دن کو منانے والوں کو کبھی عیسائیوں اور یہودیوں کا آلہ کار قرار دیتے ہیں اور کبھی اس دن کو بے حیائی اور عریانی کا منبع قرار دیتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ پھر ہم ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن کیوں مناتے ہیں۔ وہ دن بھی تو ’کفار‘ مزدوروں کے مرنے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ ویسے تو فٹبال کلب ریال میڈرڈ، بارسلونا یا مانچسٹر یونائیٹڈ سے بھی ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن چیمپیئنز لیگ کے مقابلوں کو ایک بڑی تعداد یہاں دیکھتی ہے۔ ان مقابلوں پر گیٹ ٹوگیدر کا اہتمام کر کے بار بی کیو ڈنر کا اہتمام کیا جاتا ہے اور خوب ہلا گلا کیا جاتا ہے۔ تو کیا کفار کی ٹیموں کے میچ دیکھنے پر اور انہیں پسند کرنے پر بھی پابندی لگا دی جائے؟
ایک اور اعتراض جو اس دن کے حوالے سے اٹھایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ ویلنٹائنز ڈے فحاشی و بے حیائی پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ویلنٹائنز ڈے منانا فحش ہے یا گوگل پر جنسی رجحانات کی ویب سائٹس کو سرچ کر کے دنیا بھر میں جنسی سرچ میں پہلے نمبر پر آنا؟ ویلنٹائنز ڈے پر تحفے تحائف دینا بے حیائی ہے یا پھر عورت کو باندی بنا کر چار دیواری کے نام پر اسے گھر میں قید کر کے محض اپنی شہوانی خواہشات پوری کرنا؟
اس ضمن میں اکثر اوقات یہ طنز بھی سننے کو ملتا ہے کہ ویلنٹائنز ڈے پر آپ خود تو تحائف دیتے ہیں تو اپنی باجی کا بھی بتائیے انہیں کتنے تحائف ملے۔ یہ مثال پہلے تو اس منفی سوچ کی عکاسی کرتی ہے جو عورت اور بچیوں کو ڈھور ڈنگر سمجھتے ہوئے ان کی جبلتوں کو غیرت اور گناہ سے نتھی کرتے ہوئے انہیں محض بچے پیدا کرنے والی مشین اور گھر کا چولہا جلانے والا روبوٹ سمجھتی ہے۔
دوسرا اگر مرد محبت کی آرزو کرتے ہوئے اس دن تحفے تحائف وصول کر سکتا ہے تو عورت کیوں ایسا نہیں کر سکتی؟ کوئی بھی انسانی جبلت اگر قدغنیں لگانے سے رک سکتی تو ہمارا معاشرہ کب کا جبلتوں کے اظہار میں گونگا بہرا ہو چکا ہوتا۔ خلیل جبران نے اس ضمن میں بہت خوب کہا تھا کہ بنیادی جبلتوں کے اظہار میں شرم سفید فریب کی ایک قسم ہے، مشرق میں اسے تہذیب کا نام دیا جاتا ہے۔
تہذیب بھی زبان کی مانند جامد نہیں ہوتی۔ اسے وقت اور عصر حاضر کے تقاضوں میں ڈھل کر آگے کی جانب بڑھنا ہی ہوتا ہے۔ بصورت دیگر ٹھہرے ہوئے پانی کی مانند یہ بدبو دینے لگتی ہے اور جمود کا شکار ہو کر اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ وہ خیالات جو زندگی کی رونقوں یا پرلطف لمحات کو تیاگ کر اپنے آپ پر جبر کرنے کا کہتے ہیں، آہستہ آہستہ نفسیات اور سائنس کے اصولوں کے مطابق غلط ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔
انسانی مزاج اور رویّوں پر بے پناہ تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا گیا ہے کہ آرزوؤں اور امنگوں کو کسی بھی قدغن کا پہرہ لگا کر اگر دبانے کی کوشش کی جائے تو معاشرے کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اس حقیقت کو ترقی یافتہ ممالک نے تسلیم کرتے ہوئے اپنے معاشروں میں شخصی آزادی اور جذبات کے اظہار پر موجود قدغنیں مدتوں پہلے ہی ختم کر دی ہیں۔ نتیجتاً ان معاشروں میں اعلیٰ انسانی اقدار کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔
ہم لوگ جسے بے راہ روی کہتے ہیں وہ انسان کی فطری جبلت تصور ہوتی ہے۔ پیٹ بھرنے کے بعد انسان کی دوسری بڑی خواہش جنسی آسودگی حاصل کرنا ہوتا ہے؛ اور جب ان جذبات کو کسی بھی قسم کی قدغنوں کا شکار بنایا جاتا ہے تو ان جذبات کی تسکین خود لذتی، بچیوں سے جنسی زیادتی، بچہ بازی اور انٹرنیٹ پر موجود فحش مواد کو دیکھ کر کی جاتی ہے۔ اگر ہمارے ہاں ان عادات پر تحقیق ہو، تو یقیناً ہم بھی مغربی ممالک سے اس ''بے حیائی'' میں پیچھے نہیں ہوں گے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم یہ آسودگی چوری چھپے اور ایسے طریقوں سے حاصل کرتے ہیں جو نظروں میں نہ آ سکیں۔
خیر! بات ویلنٹائنز ڈے کی ہو رہی ہے۔ ذرا بتائیے کہ محبتیں بانٹنے کا دن کیونکر کسی ایک خاص مذہب کا ہو سکتا ہے کیونکہ محبت تو مذہب اور سرحدوں سے بے نیاز ہوتی ہے، رسوم و رواج کو نہ یہ مانتی ہے اور نہ ہی پہچانتی ہے۔ بقول سعادت حسن منٹو، مرد کے اعصاب پر اگر عورت سوار نہیں ہوگی تو کیا جانور ہوں گے؟ اس بات کو عورت پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے کہ وہ مرد سے چاہے جانے کی خواہش نہیں رکھے گی تو اور کیا کرے گی؟ ویسے بھی اگر اسلحوں کی نمائش کے دن منائے جا سکتے ہیں، جنگوں کو گلوریفائی کرنے کے دن منائے جا سکتے ہیں تو محبت کرنے والوں کا دن کیوں نہیں منایا جا سکتا؟
اگر اعتراض صرف ویلنٹائنز کے فرنگی ہونے پر ہے تو اس دن کا نام تبدیل کر کے لیلیٰ ڈے یا مجنوں ڈے رکھ لیجیے۔ محبت کرنے والوں کو نام و نسب سے ویسے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی۔
رہی بات اخلاقی اقدار کی تو اگر یہ اقدار خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی سے متاثر نہیں ہوتیں، انٹرنیٹ پر فحش مواد دیکھنے سے متاثر نہیں ہوتیں؛ اگر یہ اخلاقی اقدار خواتین کے استحصال اور غیرت کے نام پر ان کے قتل جیسے بیہمانہ واقعات سے بھی متاثر نہیں ہوتیں تو بھلا محبت کرنے والوں کا ایک دن ان کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ زندگی محبت کرنے اور محبت بانٹنے سے حسین و جمیل ہوتی ہے، تعصب یا نفرت بانٹنے سے نہیں۔
ویلنٹائنز ڈے منانے والوں کو پیشگی محبت کا یہ عالمی دن مبارک ہو۔ اس دن کو نفرتوں کی نذر کر کے اس پر جبراً پابندیاں عائد کرنے والوں سے عرض ہے کہ تہذیبی نرگسیت کی قید میں بس کر نرگسی کوفتے بننے سے یا آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور پابندیاں عائد کر کے دنیا کی حقیقتیں تبدیل نہیں ہوا کرتیں۔ دنیا میں رائج جدید تہذیب رنگ، نسل، مذہب اور قومیت کی پروا کیے بغیر انسانیت اور محبت کے رشتے میں جڑے انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لا رہی ہے۔ اب تہوار اور دن سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ اس نئی عالمی اور جدید تہذیب میں زندگی کی مسرتوں اور حلاوتوں سے نفرت کرنے والوں کے لئے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔
ٹیگز: ویلنٹائنز ڈے
کالم نگار
مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔