قنديل بلوچ قتل کيس، عدالت نے مقتولہ کے بھائی کو بری کر دیا

قنديل بلوچ قتل کيس، عدالت نے مقتولہ کے بھائی کو بری کر دیا
عدالت نے ماڈل قندیل بلوچ قتل کیس کے مرکزی ملزم محمد وسیم کی عمر قید کی سزا کو ختم کرتے ہوئے اسے کیس سے بری کرنے کا حکم دیدیا ہے

ملزم محمد وسیم کے خلاف اپنی بہن ماڈل قندیل بلوچ کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا الزام تھا۔ اس نے عدالت میں سزا منسوخی کی اپیل دائر کررکھی تھی۔

محمد وسیم نے گرفتاری کے بعد اعتراف کیا تھا کہ یہ جرم اس نے ہی کیا ہےکیونکہ قندیل بلوچ خاندان کے لئے رسوائی کا باعث بن رہی تھیں، تاہم بعد میں جب اس پر باقاعدہ فرد جرم عائد کی گئی تو اس نے جرم سے ہی انکار کر دیا تھا۔

یہ واقعہ انٹرنیشنل میڈیا میں بھی آیا اور پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافے کی وجہ اس ضمن میں مناسب قانون سازی نہ ہونے کو قرار دیا گیا تھا۔

2016ء میں قندیل بلوچ کے قتل کے بعد شروع ہونے والی مہم کے بعد پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل کے قانون میں ترمیم منظور کی تھی۔ اس کے مطابق مرنے والے کے لواحقین کی جانب سے معاف کئے جانے کے باوجود قتل کرنے والے کو عمر قید یا 25 برس قید کی سزا ہوگی۔

مذکورہ ترمیم سے قبل پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ تر مقدمات میں یہ دیکھنے میں آیا تھا کہ مدعی قتل کرنے والے کے ماں باپ یا بہن بھائی ہوتے تھے جو انھیں معاف کر دیتے تھے جس کے بعد ان پر مقدمہ ختم ہو جاتا تھا۔



قندیل بلوچ کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا۔ اس کا اصل نام فوزیہ عظیم تھا لیکن انھیں شہرت قندیل بلوچ کے نام سے ہی ملی۔

انھیں پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا سیلبریٹی کہا جاتا ہے، انھیں سوشل میڈیا پر شہرت اپنے اس جداگانہ انداز کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ سوشل میڈیا پر ان کے مداحوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔

اس سے قبل مقتولہ کے 2 بھائیوں سمیت تمام پانچ ملزم بری ہو گئے ہیں جن میں معروف مذہبی سکالر مفتی عبدالقوی بھی شامل تھے۔

خیال رہے کہ سیشن کورٹ نے قندیل بلوچ قتل کیس میں مقتولہ کے بھائی کو عمر قید کی سزا سنائی تھی لیکن لاہور ہائیکورٹ ملتان بینچ نے اسے یہ سزا معطل کرتے ہوئے اسے رہا کرنے کا حکم دیدیا۔

سماء ٹی وی کے مطابق عدالت عالیہ نے گواہوں کے بیانات سے منحرف ہونے اور راضی نامہ کے بعد مرکزی ملزم کے حق میں یہ فیصلہ سنایا۔

27 ستمبر 2019ء کو ملتان کی ماڈل کورٹ نے قندیل بلوچ کے قتل کیا میں مقتولہ کے بھائی محمد وسیم کو عمرقید کی سزا سنائی تھی۔

عدالت میں دوران سماعت وکیل نے دلائل دیے کہ مقتولہ کا والد جو کہ مدعی مقدمہ تھا، اب وفات پا چکا ہے۔ کیس کے گواہ بھی ٹرائل کورٹ میں اپنے بیانات سے منحرف ہو گئے تھے۔ جبکہ سیشن عدالت نے راضی نامے کو نظر انداز کر دیا تھا۔