ہم اپنے معاشرتی رویے بدلنے پر کیوں تیار نہیں ہیں؟

ماحول کی آلودگی کے حوالے سے بطور شہری جس غفلت اور بے حسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے وہ بھی ایک خاص سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ سوچ کہ ہمارا پھیلایا ہوا کچرا کوئی اور صاف کر دے گا، معاشرے کی جانب اپنی ذمہ داری سے ایسی لا تعلقی لمحہ فکریہ ہے۔

ہم اپنے معاشرتی رویے بدلنے پر کیوں تیار نہیں ہیں؟

کہتے ہیں علم کسی کی میراث نہیں، بالکل ویسے ہی لگتا ہے کہ جہالت بھی کسی کی میراث نہیں۔ آپ کو بڑے سے بڑے تعلیم یافتہ اور ڈگری ہولڈر کے ہاں جہالت وافر مقدار میں ملے گی، کبھی کسی سکیورٹی چیک پر معمور گارڈ سے بدتمیزی کرتے ہوئے تو کبھی کسی عورت کی تضحیک کرتے ہوئے۔ یہ رویہ کسی ایک طبقے تک محدود نہیں۔

حال ہی میں ایک عزیز سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا سابقہ شوہر جو کہ کامیاب انجینئر تھا اور سعودی عرب کی ایک بڑی کمپنی میں زیر ملازمت تھا، بات بات پر ان پر ہاتھ اٹھاتا تھا۔ اس کی توجیہ وہ یہ بیان کرتا کہ میری بیگم مجھے غصہ دلاتی ہے۔ وہ کم عقل ہے، بد سلیقہ ہے، بس میرا ہاتھ اٹھ جاتا ہے، اس میں میرا کیا قصور! بدقسمتی سے یہ جہالت کافی عام ہے اور بہت سے حلقوں میں اسے جہالت نہیں، 'گھریلو معاملہ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

دوسری جانب ایک چمچماتی کروزر میں بیٹھی بظاہر باوقار خاتون بڑی بے پروائی سے گاڑی کا سارا کچرا بلا جھجک کھڑکی سے باہر پھینک دیتی ہے۔ توجہ دلانے پر وہ بے نیازی سے کہتی ہے کہ کہیں کچرا آپ پر تو نہیں گرا؟ اگر نہیں گرا تو اپنے کام سے کام رکھیں۔ اس جہالت کو 'مائنڈ یور اون بزنس' کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ایک اور دلچسپ مثال پنجاب یونیورسٹی میں ایم فل پروگرام کی طالبہ نے پیش کی جن کی کلاس میں اکثر ان کو موضوع بنا کر گھریلو گفتگو کی جاتی ہے، حالانکہ کلاس میں وہ واحد صاحب اولاد نہیں۔ یہ بات لیکن غور طلب ہے کہ وہ واحد خاتون ضرور ہیں۔ لہٰذا جب وہ کسی مشکل یا پریشانی کا اظہار کرے تو کچھ کلاس فیلو طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ انہوں نے گھر جا کر روٹی پکانا ہو گی، سر ان کو جانے دیجیے۔

ایسی بات کر کے وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ اسے اس کا اصل کام یاد کرانا چاہتے ہیں؟ اس کی صحیح جگہ جو چولہے سے شروع ہو کر روٹی پر ختم ہوتی ہے؟ درسگاہ میں سب طالب علم کی حیثیت سے موجود ہوتے ہیں، کسی کی ذاتی زندگی کو موضوع بنانا یا تمسخر سے بھرپور سٹیریو ٹائپنگ کرنا سکالرز کو زیب نہیں دیتا۔

یہ رویے غور طلب ہیں۔ ان کو درست کرنے کے لیے ہمیں اپنے نظریات کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنا ہوگا اور کھلے ذہنوں کے ساتھ انہیں بدلنے کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ اس سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کی پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ حمید الرحمن کا کہنا ہے کہ ہمارے رویوں کے پیچھے وہ سوچ اور افکار کار فرما ہوتے ہیں جو ہم نے اپنے ماحول سے اخذ کیے ہوتے ہیں۔ عورتوں کو مردوں سے کم تر تصور کرنا ہمارے معاشرے کی سوچ کا حصہ ہے جسے ترویج دینے میں دین کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو عورت بحیثیت ماں مرد سے اعلیٰ درجہ رکھتی ہے۔ مزید براں یہ مرد عورت کے مابین مقابلے کی روایت نا مناسب بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔

دوسری جانب ماحول کی آلودگی کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو بطور شہری جس غفلت اور بے حسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے وہ بھی ایک خاص سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ سوچ کہ ہمارا پھیلایا ہوا کچرا کوئی اور صاف کر دے گا، معاشرے کی جانب اپنی ذمہ داری سے ایسی لا تعلقی لمحہ فکریہ ہے۔

ڈویلپمنٹ سیکٹر میں ایک عرصے سے خدمات پیش کرنے والی محترمہ رابعہ خان کا کہنا ہے کہ چند دہائیوں پہلے حالات اس قدر مایوس کن نہیں تھے، لوگوں میں تہذیب بھی تھی اور تمیز بھی۔ گھریلو تشدد کا ذکر سنتے تھے اور نا ہی کوئی ایسا واقعہ سامنے آتا تھا۔ شہر آج سے کئی درجے زیادہ صاف بھی تھے اور پرسکون بھی۔ لوگ دانش مند بھی تھے اور دوراندیش بھی۔ پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ اقدار کے ساتھ ساتھ ماحول، تہذیب، معاشرہ؛ سب تنزلی کے شکار ہوتے گئے؟ یہ سوال ہماری توجہ کا مرکز نہ بنے تو مزید گراوٹ کو ہمارا مقدر بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

ایک بے ہنگم ہجوم چلا جا رہا ہے جسے ٹھیک کرنے کے حوالے سے کوئی مربوط منصوبہ بندی دور دور تک نظر نہیں آ رہی۔ سب خراب کیسے ہوا؟ سب ٹھیک کیسے ہو گا؟

پہلا قدم یہ سوال ہیں۔ یہ سوال ہمیں خود سے بھی کرنا ہوں گے اور ایک دوسرے سے بھی۔ معاشرے کی خرابی میں اپنے کردار کو قبول کرنا ہو گا۔ خود احتسابی کے مشکل امتحان سے گزرنا ہو گا۔ کٹہرے میں کھڑا ہونا ہوگا ورنہ کل کلاں ہمارے لباس اور مکان تو روشن ہوں گے مگر ذہن، سوچ اور دماغ زنگ آ لود ہو چکے ہوں گے۔