خواتین مخالف سٹیریو ٹائپس کو چیلنج کرتی بھارتی سپریم کورٹ کی ہینڈ بک جاری

اس ہینڈ بک میں ایک ٹیبل بنا کر ان سٹیریو ٹائپس کو باقاعدہ کھنگالا گیا ہے جن کا تعلق براہ راست زیادتی، جنسی ہراسانی اور مجرمانہ حملے سے ہے۔ اس کے علاوہ ایک فہرست بنا کر ان سٹیریو ٹائپ رویوں کو للکارا گیا ہے جو اچھی عورت یا بری عورت کے قدامت پسندانہ تصورات کی شکل میں ہندوستانی سماج میں سینکڑوں سال سے چلے آ رہے ہیں۔

خواتین مخالف سٹیریو ٹائپس کو چیلنج کرتی بھارتی سپریم کورٹ کی ہینڈ بک جاری

برطانیہ کے نظام صحت میں فعال تمام پیشہ ور افراد گواہی دیں گے کہ ہمیں انسانوں کی شمولیت (انکلوژن)، ان سے برابری کا سلوک کرنے اور خود کو نسلی، صنفی، مذہبی اور جنسی میلانات سے متعلق تعصبات سے بالاتر رکھنے کے لئے کورسز کرائے جاتے ہیں اور ان کورسز کو سالانہ دہرائے بغیر نظام صحت میں کام نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس بنا پر نوکری سے برخاست بھی کیا جا سکتا ہے جبکہ ان کے برخلاف عمل کرنے پر ڈاکٹری یا نرسنگ کا لائسنس منسوخ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کے کورسز برطانیہ میں سکول، کالجوں کے اساتذہ اور پولیس اہلکاروں سمیت سب کے لئے لازمی ہیں۔ عدلیہ کے لئے تو تعصبات سے پاک ہونا انصاف کی فراہمی کے لئے پہلی شرط ہے۔

ایسے میں بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے ججز اور عدالتی اہلکاروں کو صنفی تعصبات سے متعلق نئی ہدایات پر مبنی 30 صفحاتی ہینڈ بک کا اجرا ایک بہت عمدہ اقدام ہے۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں بھارت ایک تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے لیکن وہاں بنت حوا کی سماجی حیثیت قابل رشک نہیں۔ عورتوں کے ساتھ بدسلوکی میں بھارت دنیا کے بدترین ممالک میں گنا جاتا ہے۔ تنہا عورت مسافر کے لئے غیر محفوظ ترین ممالک کی فہرست میں امسال بھارت کی نویں پوزیشن آئی ہے۔

سٹیریو ٹائپ کیا ہوتے ہیں؟

سٹیریو ٹائپ سے مراد وہ دقیانوسی تصورات اور من گھڑت عقائد ہیں جو لوگ کسی فرد یا عمل سے جوڑ لیتے ہیں۔ اس طرح مختلف انسانوں کے گروہ کی عادات، خصوصیات یا طرز عمل سے متعلق ایک اٹل رائے قائم کر لی جاتی ہے جو پھر ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی جاتی ہے۔ ہم سب اپنے سے مختلف افراد سے میل جول کے دوران ایک لاشعوری عصبیت کا شکار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ناصرف سامنے کھڑے شخص کی انفرادی شخصیت اور خصوصیات کو دیکھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں بلکہ اس کے متعلق فیصلہ کرتے ہوئے بھی شعور دھندلا جاتا ہے۔ یہ سٹیریو ٹائپ کارخانوں، دفتروں، شاپنگ سینٹرز، اسپتالوں، تعلیمی اداروں، کھیل کے میدان الغرض تمام عوامی مقامات پر کچھ لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان کی عدم شمولیت کا باعث بنتے ہیں۔ سٹیریو ٹائپنگ کا شکار افراد کچل کر رہ جاتے ہیں۔ ان کی دماغی صحت، صلاحیت اور پیشہ ورانہ کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

صنفی تعصبات کے خاتمے کیلئےجاری ہینڈ بک کا مقصد عام بول چال اور محاورے میں موجود عورت مخالف الفاظ اور ترکیبات کو قانونی ابحاث سے خارج کرنا ہے جو صنفی تعصب کا صرف اظہار ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے تسلسل اور تقویت کا سبب بن رہے ہیں۔ ہم نے اس کتابچے کا جائزہ لیا جو بہت متاثر کن ہے۔

قانونی اصطلاحات کی اصلاح

یہ ہینڈ بک ہدایت دیتی ہے کہ عدالتی کارروائی میں زانیہ کہنے کے بجائے شادی کے بنا جنسی سمبندھ میں ہونے والی عورت، معاشقہ (افیئر) کی جگہ شادی کے بغیر تعلق، حرامی (باسٹرڈ) نہیں بلکہ وہ بچہ جس کے والدین آپس میں شادی شدہ نہیں تھے، چھیڑچھاڑ (ایو ٹیسنگ) کے بجائے سرعام جنسی طور پر ہراساں کرنا، بدقماش عورت کی جگہ صرف عورت، رنڈی/ طوائف/بیسوا کے بجائے سیکس ورکر، کام چور کے بجائے بے روزگار، داشتہ کی جگہ شادی کے بغیر تعلق میں عورت، کھل نائیکہ، چلتر، چالو، پھوہڑ کی جگہ صرف عورت، ستی ساوتری کی جگہ بھی صرف عورت، بن بیاہی ماں کی جگہ صرف ماں لکھنے اور بولنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک طویل عرصے سے قانونی اصطلاحات کے طور پر استعمال ہو رہے تھے۔

عورتوں سے متعلق سٹیریو ٹائپس پدرسری روایات کا پرتو ہیں

اس ہینڈ بک میں قابل اعتراض الفاظ کے علاوہ عورتوں کے متعلق بہت سے سٹیریو ٹائپس کو چیلنج کر کے حقیقت بیان کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر عورتوں کو حد سے زیادہ جذباتی، غیر منطقی، ڈھلمل، جسمانی طور پر کمزور، مہربان، نرم خو، رحمدل، نچلے طبقات کی عورتوں کو دوسری عورتوں سے کم ذہین سمجھنا، یہ کہنا کہ سب عورتوں کو بس بچے پیدا کرنے کا شوق ہوتا ہے، عورتوں کو صرف گھرداری کرنی چاہئیے، جو عورت باہر کام کرتی ہے وہ اچھی ماں نہیں بن سکتی، عورتیں بالخصوص ماؤں کا ذہن الجھا رہتا ہے لہٰذا وہ دفتروں میں اچھا کام نہیں کر سکتیں، عورتوں کو مردوں کا مطیع و فرمانبردار ہونا چاہئیے وغیرہ وغیرہ۔ ہینڈ بک ان تمام روایتی تصورات کو غیر حقیقی اور دراصل ہزاروں سال پرانی پدر سری (پیٹری آرکی) کا پرتو قرار دیتی ہے۔

جنسی زیادتی، ہراسانی اور حملے سے متعلق سٹیریو ٹائپس

اس ہینڈ بک میں ایک ٹیبل بنا کر ان سٹیریو ٹائپس کو باقاعدہ کھنگالا گیا ہے جن کا تعلق براہ راست زیادتی، جنسی ہراسانی اور مجرمانہ حملے سے ہے۔ یہ سٹیریو ٹائپس بہت دلچسپ ہیں اور پاکستانی معاشرے اور ڈایاسپورا میں بھی ان کی بازگشت بہت سننے کو ملتی ہے۔

مثال کے طور پر:

غیر روایتی (کم) لباس میں ملبوس عورت دراصل مرد سے جنسی تعلق استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کر رہی ہوتی ہے۔

شراب یا سگریٹ کی عادی عورت جسمانی تعلق کے لئے بے قرار ہو رہی ہوتی ہے، اسے بلا اجازت نامناسب طور پر چھونے والے مرد کی کوئی غلطی نہیں ہوتی۔

وہ مرد جو عورتوں پر جنسی حملہ یا ان کا ریپ کرتے ہیں عموماً اجنبی ہوتے ہیں۔

وہ عورت جس کا ریپ کیا گیا ہو وہ روتی دھوتی اور ہمہ وقت ڈپریس لگنی چاہئیے اور وہ خودکشی کے لئے تیار ہو گی۔ جو عورت اس قاعدے پر پوری نہ اترے، وہ ریپ کا جھوٹا الزام لگا رہی ہے۔

ریپ کا الزام وقوعہ کے کچھ عرصے بعد لگانے والی عورت جھوٹی ہوتی ہے۔

اعلیٰ ذات کے مرد نچلی جاتی کی عورتوں سے جنسی تعلق قائم نہیں کرنا چاہتے چنانچہ اس طرح کا الزام لگانے والی کم ذات خاتون جھوٹی ہوتی ہے۔

اسی طرح صحت مند مرد معذور یا بیمار عورت سے جسمانی تعلق قائم نہیں کر سکتا۔

ریپ ایک ایسا جرم ہے جو اس کا شکار بننے والی عورت اور اس کے خاندان کی عزت کو داغدار کر دیتا ہے۔ ایسے میں اگر ریپ کرنے والا اس عورت سے شادی کر لے تو اس کی عزت بحال ہو سکتی ہے۔

مرد اپنی جنسی خواہشات پر قابو پا ہی نہیں سکتا۔

وہ عورت جس کے پہلے سے جنسی تعلقات رہے ہیں وہ آبرو باختہ ہوتی ہے، اس لئے اسے ریپ کا شکار نہیں کہہ سکتے۔

نوجوان نسل مغربی کلچر سے متاثر ہو رہی ہے۔ آپس میں سیکس کر لینا ان میں معمول کی بات ہے۔ اسی وجہ سے ان پر کبھی جنسی تشدد بھی ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ایک فہرست بنا کر ان سٹیریو ٹائپ رویوں کو للکارا گیا ہے جو اچھی عورت یا بری عورت کے قدامت پسندانہ تصورات کی شکل میں ہندوستانی سماج میں سینکڑوں سال سے چلے آ رہے ہیں۔ یہ ہینڈ بک ٹرانس جینڈر کو بھی زبانی طور پر تحقیر سے بچانے کے لئے تحفظ فراہم کرتی ہے۔

یہاں ایک لمحے کو ٹھہر کر ہم گذشتہ سال عالمی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے اس سروے پر نظر ڈالتے ہیں جس کا موضوع ہندوستانیوں میں خاندان اور معاشرے میں صنفی کردار تھا۔ اس میں تمام مذاہب کی نمائندگی موجود تھی۔

پیو ریسرچ سینٹر کے سروے کے نتائج

اس سروے سے درج ذیل نتائج اخذ ہوئے تھے:

دو تہائی ہندوستانی بیویوں کو شوہروں کا مطیع و فرمانبردار دیکھنا چاہتے ہیں۔

اتنے ہی افراد سمجھتے ہیں کہ والدین کی آخری رسومات کی ادائیگی بیٹے ہی کو کرنی چاہئیے۔

60 فیصد بھارتی خاندان میں صنفی مساوات کی جدید اقدار کے حق میں نہیں۔

ایک چوتھائی کی رائے میں عورتوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ تعداد کسی بھی مذہب کے خلاف تعصب سے کہیں زیادہ ہے۔

صرف 50 فیصد ہندوستانی سمجھتے ہیں کہ عورتوں کے تحفظ کے لئے لڑکوں کی بہتر تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔

40 فیصد بھارتی اس دور میں بھی ایسی شادی کے حق میں ہیں جس میں میاں بیوی کے کردار روایتی ہوں، یعنی مرد کما کر لائے اور عورت گھر گرہستی کرے۔

مذہبی اعتبار سے اس سروے کے مسلمان شرکا سب سے زیادہ قدامت پسندانہ سوچ کے حامل پائے گئے جبکہ سکھوں کی آرا سب سے زیادہ غیر روایتی تھیں۔

بھارتی سپریم کورٹ کی جاری کردہ ہینڈ بک کا دائرہ کار جلد یا بدیر احاطہ عدالت سے نکل کر اخبارات، میڈیا، سوشل میڈیا اور ہندوستانی سماج تک پھیل جائے گا۔ فرسودہ روایات پر شکایات درج کروائی جا سکیں گی اور مقدمات قائم ہوں گے جن کا خوف ان سٹیریو ٹائپس کو توڑے گا۔ معاشرہ تبدیل ہو گا۔ یہ بہت اچھی ابتدا ہے۔ امید ہے اس کے کچھ مثبت اثرات بھارت کے ہمسایہ ممالک تک بھی پہنچیں گے۔