پاکستانی سیاست میں جب سے پی ڈی ایم،حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات بظاہر پوائنٹ آف نو رٹرن پر پہنچے ہیں۔ اچانک سے مسلم لیگ فنکشنل کے جنرل سیکریٹری محمد علی درانی ایکٹویٹ ہوئے ہیں اور انہوں نے شہباز شریف سے لے کر مولانا فضل الرحمٰن تک ہر جگہ رات کی تاریکیوں اور دن کے اجالوں میں ملاقاتیں کی ہیں۔
ان ملاقاتوں سے کیا نکلا ؟ ملک کے طاقتور ترین حلقے کیا سوچتے ہیں۔ علی درانی کی سیاسی بصیرت کیا کہتی ہے یہ سب انہوں نے کھل کر بتایا نیا دور کے پروگرام خبر سے آگے میں۔
علی درانی نے کہا کہ ملک سیاسی تصادم کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ مفاہمت ہی اس وقت کے حالات میں سب سے بہتر حل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے نزدیک حل یہ ہے کہ سب سیاسی قوتوں کو گھیر گھار کر پارلیمنٹ میں لے جائیں۔ پارلیمان جیسا بھی ہو اسکی ہی تعظیم ہونی چاہئے۔
علی درانی جو کہ اس جماعت کے جنرل سیکریٹری ہیں جو کہ حکومت کی حلیف ہے انہوں نے پروگرام میں حکومت کے اپوزیشن کی جانب رویئے پر تنقید کرتے وہئے اسے غیر جموہری قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو جیل میں رکھنا پھر بد تہذیبی یہ سب کچھ غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی تحریک سے تو انکا دلی لگاو ہے۔ پی ڈی ایم کی سیاسی قیادت کو انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنا رخ صرف اور صرف حکومت کی جانب رکھیں۔ کیوں کہ جو بیٹھا ہوتا ہے وہی طوطا ہوتا ہے جس میں سب کی جان ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انکے دوروں اور ملاقاتوں کے نتائج سب پر واضح ہو رہے ہیں۔ پہلے اداروں کے سربراہان کے نام لیئے جاتے تھے۔ پھر بات شہروں کے ناموں پر آگئی اور اب چائے اور پیزے کی بات ہو رہی ہے ۔
علی درانی نے مرتضیٰ سولنگی کے جواب میں کہا کہ یہاں سیاست اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ہی ہے۔ ہماری طرف ہے تو جمہوریت نہیں ہے تو فسطائیت۔ پہلے کہا گیا کہ عدلیہ الیکشن کرائے وہ ہوگئے تو کہا گیا کہ یہ تو آر اوز کا لیکشن تھا۔ پھر کہا گیا کہ فوج آجائے تو کہا گیا کہ سلیکٹڈ ہوگیا۔ اب بات یہ ہے کہ اس پر سب کا اتفاق ہو کہ معاملات کو چلایا جائے۔ تمام الیکشن ایک دن پر کرائے جائیں۔ اور پارلیمان کو عزت دی جائے۔
پروگرام میں سینیر صحافی مزمل سہروردی اور علی درانی کے درمیان مزیدار نوک جھونک بھی جاری رہی۔ پارلیمان کو عزت دینے کے حوالے سے مرتضیٰ سولنگی اور مزمل سہروردی نے صائب سوالات اٹھائے اور علی درانی کی رائے سے اختلاف بھی کیا۔ علی درانی نے اپوزیشن کے حوالے سے کہا کہا کہ یہ عوامی مسائل کو اپنی جدو جہد کا حصہ بنائے کامیاب ہوجائے گی۔ انہوں نے چینی کے معاملے تک پر کچھ نہیں کیا۔ عوام چینی کے معاملے پر رل گئے۔