ہاشو شکاری کی نئی نئی نوکری "لگی" تھی۔ نوکری کا پہلا دن اور اوپر سے موسلا دھار بارش، جلدی تو ہونی ہی تھی۔ ایسی حالت میں دروازے کے عین سامنے پڑے کیلے کے چھلکے پر نظر کیسے پڑتی؟ پاؤں رکھنے کی دیر تھی، بری طرح پھسلا اور دھڑام سے وہ جا پڑا۔ کپڑوں کا مارے تبدیلی کے برا حال ہو گیا۔ جیسے تیسے کر کے اٹھا۔ سوچا کپڑے تبدیل کر لوں، پھر خیال آیا کہ کپڑے تبدیل کیے تو لیٹ ہو جاؤں گا۔ لوگ کیا سوچیں گے کہ پہلے دن ہی لیٹ آیا ہے۔ سوبادل نخواستہ نکل پڑا۔ بھاگتا دوڑتا ہانپتا کانپتا جیسے تیسے کر کے دفتر پہنچا۔عجیب سا حلیہ، لوگوں کی عجیب سی نظریں، تاب نہ لاکر ہاشو نے سلام کیا اورکہنے لگا:چونکہ میں دروازے کے سامنے گر پڑا تھا، کپڑے اس لیے گندے ہو گئے ہیں،میں ابھی تبدیل کر کے آیا۔ یہ سن کر کلرک میاں آگے آئے اور بائیں آنکھ پھڑکاتے ہوئے گویا ہوئے: تو پہلے ہی تبدیل کر کے آ جاتے ناں ہاشو میاں، اس طرح تو لیٹ ہو جاؤ گے۔ ہاشو، جس نے بمشکل بات ختم کر کے واپسی کی راہ لی ہی تھی، کلرک کی بات سن کر رکا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جواب دیا: جناب! میں یہی بتانے آیا تھا کہ میں دیر سے آؤں گا کیونکہ میرے کپڑے گندے ہو گئے ہیں جنہیں تبدیل کرنے میں کچھ وقت تو بہر حال لگنا ہے۔ اب آئی سمجھ یا پچھلی بھی گئی؟ گھر پہنچا، کپڑے تبدیل کیے، دروازہ کھول کردیکھا تو کیلے کا چھلکا بدستور وہیں پڑا پایا، برا سا منہ بناکر پیچھے ہٹ آیا۔
بیگم نے پوچھا: کیا ہوا سرتاج؟ کہنے لگا: کچھ نہیں بس وہ کیلے کا چھلکا اب بھی وہیں پڑا ہے۔ بیگم نے حیرانی سے پوچھا: تو؟ ہاشو نے جواب دیا: تو کیا؟ ایک بار پھر پھسلنا پڑے گا۔
بات شاید پرانی ہو لیکن زمانہ کم بخت بھولنے کب دیتا ہے۔ ہاشو کا نام تو بس ویسے ہی بدنام ہے جیسے مولویوں اور پٹھانوں کا نام ایک خاص تناظر میں بدنام کیا گیا۔ فرنگی اس خطے میں آیا تو اس کے خلاف تاریخی مزاحمت انہی دو کرداروں نے کی، لہذا لوگوں کے دلوں سے ان کی عظمت نکالنے کے لیے ”لطیفہ نصاب“ کا سہارا لیا گیا اور اس دور میں بلکہ آج بھی ہر گندا لطیفہ انہی دو طبقوں کے نام سے گھڑا، سنا اور سنایا جاتا ہے۔
خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی جو ایک الگ مفصّل مضمون کی متقاضی ہے، بات ہو رہی تھی کہ بھلے بدنام ہاشو ہوا لیکن ہاشو محض ایک نام یا شخص نہیں بلکہ ایک استعارہ اور کردارہے۔ ایسے کئی ہاشو آپ نے بھی دیکھے ہوں گے جو کیلے کا چھلکا پھینکنے والے کو گالیاں دیتے رہیں گے، روزانہ کیلے سے پھسلتے رہیں گے لیکن وہ کیلے کا چھلکا نہیں ہٹائیں گے۔ زمانے نے ترقی کی تو ہاشو کے کردار نے بھی ترقی کی اور گلی محلے سے ہوتا ہوا اداروں اور ملکی سطح تک جا پہنچا۔ رہا یہ سوال کہ ”لطیفہ نصاب“ کے اس ”ایک پیج“ کا ”محل استعمال“ کیا ہے تو بتاتا ہوں لیکن بتانے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ کسی بھی کردار سے مماثلت محض اتّفاقیہ ہو گی جس کا ذمہ دار نہ تو ہاشو اور نہ مسکین کالم نگار۔ مجھے تو بس ایک بیان پڑھ کر یہ سب یاد آیا۔ برا ہو حافظے کا، لیکن خیر آپ بھی پڑھیے۔
ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ایک ”شاہکار“ تقریر سننے کا اتّفاق ہوا۔ایک ہی نشست میں تین عجیب فقرے ملے۔ایک؛ I.M.F کی شرائط ماننے سے ملکی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔دو: I.M.F کے پاس اسی کی شرائط پر جانا مجبوری ہے۔ ایمان سے بتائیے، کیا یہ کیلے سے پھسلنے والی پوزیشن نہیں ہے؟یعنی پھسلنا پڑا تو پھسلیں گے بلکہ پھسلتے رہیں گے لیکن ہاشو کی طرح پھر بھی پاؤں ضرور رکھیں گے۔کسی نے کچھ کہا تو بات پچھلوں پر ڈال دیں گے۔ اگر پھر بھی بات نہ بنی تو اس میں ہمارا کیا قصور؟ ہم نے تو بتا دیا کہ میاں چھلکا پڑا ہے اور سلامتی کو پھسلنا پڑے گا ۔ تین: معیشت ٹھیک نہ ہو تو خود کو زیادہ دیر محفوظ نہیں رکھ سکتے۔یہ ہیں تین جملے؛انہیں ملائیے اور بتائیے کہ کون سی مثلّث ترتیب پاتی ہے؟ مجھے تو اس صادقیاتی مثلّث کے کسی بھی امینیاتی زاویے کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ لیکن خیر عوام کی سہولت کے لیے کھینچتے ہیں خط نمبر چار: ریاست اس وقت محفوظ ہوتی ہے جب عوام اس کے پیچھے کھڑے ہوں۔ ان چاروں خطوط کو ملا کرعوام اگر اب بھی مربع نہیں بنا سکتے تو پھر انہیں مربّہ کھانا بھی زیب نہیں دیتا۔ایسے عوام کو روکھی سوکھی ہی زیب دیتی ہے جس کے لیے موجودہ حکومت بھرپور کوشش کیے جا رہی ہے۔
رہی بات عوام کے پیچھے ہونے کی تو شاید”گل“ کو خبر نہ ہو لیکن ”بوٹا بوٹا“ جانتا ہے کہ عوام واقعی”پیچھے“ہے بلکہ بہت ہی پیچھے اور ”گل“ کے ہوتے ہوئے ان کے آگے بڑھنے کا امکان بھی نہیں ہے۔اس بات کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ مقرّر خان نے اسی نشست میں اس بات کا اعادہ بارے دیگر کیا ہے کہ نچلے طبقوں کو ”اوپر“ اٹھانا ہے۔ ظاہر ہے جب نچلے طبقے ”اوپر“ چلے گئے تو نیا امیرستان بننے میں منٹ بھی نہیں لگنا۔عوام پیچھے پیچھے، مقررخان آگے آگے، سفر جاری ہے، بس ذرا الیکشن والی کھائی آنے دیں، پیچھے کھڑے عوام نے بس ذرا ایک دھکا لگانا ہے اور اگلے نے”کھائی کھائی“ ہو جانا ہے، تب تک سٹیج پر تشریف لاتے ہیں ”انتظار خان“۔