پچھلے چند دنوں میں کچھ خبریں برقی اور اشاعتی ذرائع ابلاغ پر تواتر سے آرہی ہیں، یہ تینوں خبریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ جو نظام وطن عزیز میں رائج ہے اس کو تیزاب سے غسل دینے کی ضرورت ہے ورنہ یہ ایک خون آشام درندے کے روپ میں ہماری رگوں میں بچا کچھا خون بھی پی جائے گا۔
پہلے جو کچھ مری میں ہوا وہ سب کے سامنے ہے، موسمِ کی شدت کے بارے میں محکمہ موسمیات کی ہدایت کے باوجود ریاستی اداروں نے کوئی ایسی حکمت عملی مرتب نہیں کی جو ہنگامی حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے ہو اور عوام نے بھی موسم کی شدت پر دھیان نہیں دیا اور صرف برف باری دیکھنے کے مری کا رخ کیا۔ ہماری ریاستی مشینری زنگ آلودہ ہو چکی ہے، وہ وزیراعظم عمران خان کو یہ تو بتا دیتی ہے کہ آپکی سیاحت کی پالیسی کامیاب جا رہی ہے اور آج مری میں اتنے لاکھ گاڑیاں داخل ہو گئی ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ اگر وہاں کوئی ہنگامی حالات پیدا ہو گئے تو ہم اس سے کیسے نمٹیں گے۔
محکمہ سیاحت صوبائی اور وفاقی مری کی مقامی انتظامیہ کی یہ بدترین ناکامی ہے اور عوام کو چونکہ اخبارات کے مطالعہ کی عادت نہیں لہذا وہ حالاتِ حاضرہ سے بے خبر ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار اور تحریک انصاف کے ان رہنماؤں کے لیے یہ واقعہ قابل شرم اور آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ مری کے حالات کا علم ہونے کے باوجود وہ جماعت کی تنظیم سازی کے اجلاس میں بیٹھے رہے۔
دوسری طرف قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے موقع کی مناسبت سے خوب سیاسی شعبدہ بازی کی ہے اور انسانی جانوں کے نقصان پر دل کی بھڑاس نکالی ہے ،یاد کریں یہ وہی شہباز شریف ہیں جن کی حکومت میں لاھور میں ڈینگی اور دل کے ہسپتال میں غلط دوائی دینے کے بعد تین سو سے زائد افراد مارے گئے تھے، ماڈل ٹاؤن میں پولیس نے بے گناہ لوگوں کو خون میں نہلا دیا تھا اور بلاول بھٹو زرداری کی والدہ کی حکومت میں 1990 میں حیدر آباد پکا قلعہ آپریشن میں بے گناہ لوگوں کو جان سے مارا تھا اور جو کچھ تھر میں بچوں کی زندگیوں کے ساتھ خونی کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ قابل شرم ہے۔
ذرا سماج کا ایک اور چہرہ بھی دیکھ لیں شاہ زیب قتل کیس کا مرکزی مجرم شاہ رخ جتوئی پچھلے چند ماہ سے جیل کی بحائے نجی ہسپتال میں داخل ہے اور آزادانہ نقل و حرکت کر رہا ہے، 2012 میں ہونے والے اس اندوہناک قتل کو ذرائع ابلاغ میں خوب اچھالا گیا، مرکزی ملزم جو سندھی وڑیرا تھا گرفتار ہوا بعد ازاں مقتول شاہ زیب کے لواحقین نے قصاص و دیت کے تحت مقدمہ سے دستبردار ہو گئے، اسکے بدلے میں آسٹریلیا کی شہریت اور کروڑ روپے لیے۔
چند ماہ قبل اسلام آباد میں ایک کروڑ پتی عثمان مرزا نے ایک لڑکی اور لڑکے کو برہنہ کر کے تشدد کیا ذرائع ابلاغ میں خوب اچھالا گیا اور اسکی گرفتاری کا مطالبہ ہوا وہ گرفتار ہوا اب اس متاثرہ لڑکی نے عدالت میں بیان دیا ہے کہ میرا ملزم عثمان مرزا نہیں ہے ،کہا جا رہا ہے مبینہ طور پر دونوں فریقوں میں صلح ہوگئی ہے اور ایک کروڑ میں بات طے ہوئی ہے۔
آخر میں پاکستان میں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کرنے کی تیاری کر لی ہے جس میں سیاست دانوں کی تا حیات نااہلی کو ختم کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
ایک کلرک اگر بدعنوانیوں میں ملوث پایا جاتاہے تو وہ تا حیات سرکاری نوکری کے لیے نا اہل ہو جاتا ہے مگر سیاست دان کی تاحیات نااہلی ختم ہونی چاہیے تاکہ وہ وزیراعظم بن کر مزید لوٹ مار کر سکے ،یہ ہے میرے پاکستان کا نظام اور سماج جس کو تیزاب سے غسل کی ضرورت ہے۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔