Get Alerts

عمران خان نے پی ٹی آئی اور ق لیگ کے انضمام کی تجویز دے دی

عمران خان نے پی ٹی آئی اور ق لیگ کے انضمام کی تجویز دے دی
سابق وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ قائد (مسلم لیگ ق)  کے انضمام کی تجویز دے دی۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ اتحادی جماعت مسلم لیگ ق تحریک انصاف کے ساتھ ضم ہو جائے۔

سابق وزیر اعظم نے جمعہ کو لاہور میں اپنی رہائش گاہ زمان ٹاؤن میں صحافیوں سے ایک ملاقات میں یہ تجویز شیئر کی۔ پنجاب اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ کیلئے186ممبران پورے ہونے پر عمران خان نے خوشی کااظہار کیا  اور کہا  کہ ہمیں لگ رہا تھا ہمارے 186 ارکان پورے نہیں ہو پائیں گے مگر ہم نے 186 ارکان پورے کرکے دکھا دیے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی بدھ کی رات پنجاب اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کیا جب ٹریژری بنچوں پر بیٹھے قانون سازوں نے ان پر اعتماد کیا۔ اپوزیشن نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر احتجاجاً اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔

مسلم لیگ ق کے  پی ٹی آئی میں انضمام کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ دونوں اتحادیوں کے مجوزہ انضمام پر بات چیت ابھی باقی ہے۔ انہوں نے مونس الٰہی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اپنی پارٹی کی پرانی قیادت کو  بھی مونس نے ہی راضی کیا۔وہ طاقتور حلقوں کے دباؤ کے باوجود پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں۔

مونس الہیٰ نے بہت اچھا کردار ادا کیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے فوری بعد خیبرپختونخوا اسمبلی بھی تحلیل کر دی جائے۔

عمران خان کا  کہنا تھا کہ یہ نگران سیٹ اپ کو طول نہیں دے پائیں گے۔نئی اسٹیبلشمنٹ ان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ میرا خیال ہے کہ ق لیگ آگے چل کر پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بن جائے گی۔

خان نے دھمکیوں اور دیگر دباؤ کو برداشت کرنے پر چوہدری پرویز الٰہی کی بھی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے اپنے اراکین کو بھی بہت ساری پیشکشیں تھیں۔ خاص طور پر خواتین ایم پی اے، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور جب اعتماد کا ووٹ آیا تو وہ اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔

خان نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑنا پاگل پن ہے۔

فوج کے ساتھ مفاہمت پر عمران خان نے کہا کہ یہ ممکن ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کو معاف کر کے آگے بڑھنے پر راضی ہیں۔ چاہے وہ اعظم خان سواتی کا معاملہ ہو یا شہباز گل کا یا دوسری چیزیں جو کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد سے ہوئیں۔ کیونکہ وہ حقیقی طور پر یہ مانتے ہیں کہ فوج سب سے منظم ادارہ ہے اور اس کے پاس ڈالر کی اسمگلنگ کو روکنے، بدعنوانی کے خلاف کریک ڈاؤن اور دیگر چیزوں میں مدد کرنے کے وسائل ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو صرف لیڈروں کی ہدایت کی ضرورت ہے۔ جب وہ صحیح سمت میں آگے بڑھیں تو ان کا کردار بہت مثبت ہو سکتا ہے۔

ایک رپورٹر نے سوال کیا کہ کیا فوج کو مزید کردار دینے کی صورت میں سیاست میں مداخلت کے لیے مزید جگہ ملے گی؟ اس پر عمران کان نے کہا کہ یہ راتوں رات ختم نہیں ہو سکتا لیکن قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے رہنماؤں کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ فوج کو کس طرح استعمال کرنا ہے اس کے لیے ایک سمت متعین کی جائے۔

ان کے مطابق، صرف فوج ہی ملک کو موجودہ دلدل سے نکال سکتی ہے اگر وہ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرے۔

خان نے کہا کہ فوج قانون کی حکمرانی قائم کر سکتی ہے اور کوئی ادارہ قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ وہ  پی ڈی ایم کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ لٹیرے ہیں جو این آر او چاہتے ہیں جس کا بنیادی مطلب ہے کہ وہ قانون سے بالاتر ہونا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ان کا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ان کے اثاثے بیرون ملک ہیں جس کی وجہ سے ان پر بیرونی طاقتوں کا دباؤ بھی ہو سکتا ہے۔

بلوچستان اور سابق فاٹا کے بارے میں بات کرتے ہوئے خان نے کہا کہ وہ فوجی حل پر نہیں سیاسی حل پر یقین رکھتے ہیں ۔

پی ٹی آئی کے دور میں میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن کے بارے میں پوچھے جانے پر عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ان کے دور میں میڈیا چینل بند کرنے، صحافیوں کو  نوکریوں سے نکالنے اور میڈیا سے زیادتیوں سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ 'میں نے ہمیشہ قانونی راستہ اختیار کیا ہے جب مجھے میڈیا کے ساتھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ میں میڈیا کی تنقید کے لیے بہت زیادہ تحمل رکھتا ہوں۔'

پی ٹی آئی چیئرمین نے پریقین انداز میں کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد پی ڈی ایم کے پاس عام انتخابات میں حصہ لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچے گا۔

خان کا خیال ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ معاشی بحران کے پیش نظر حکومت کا ساتھ نہیں دے گی۔

اگر یہ حکومت اگست تک برقرار رہی تو پاکستان کا حال سری لنکا سے بھی بدتر ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں جتنی بھی معاشی ترقی ہوئی وہ سب کو پی ڈی ایم نے ایک سال سے بھی کم عرصے میں ختم کر دیا۔