مقبول ترین لیڈر جیل میں، اسٹیبلشمنٹ نے سقوط ڈھاکہ سے کچھ نہیں سیکھا

غیر سرکاری تنظیم 'پتن' کے ایک سروے کے مطابق اس وقت عمران خان کی مقبولیت 66 فیصد، نواز شریف کی 13 فیصد اور بلاول بھٹو زرداری کی 3 فیصد ہے۔ اس سروے سے ایک بات تو عیاں ہو جاتی ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کو تمام تر ریاستی جبر کے باوجود ختم نہیں کیا جا سکتا۔

مقبول ترین لیڈر جیل میں، اسٹیبلشمنٹ نے سقوط ڈھاکہ سے کچھ نہیں سیکھا

سرور باری بائیں بازو کی سیاست کا ایک معروف نام ہے۔ وہ طویل عرصے سے ایک این جی او ' پتن' کے نام سے چلاتے ہیں جو پاکستان میں ہونے والے انتخابات کو مانیٹر کرتی ہے۔ ان کی این جی او کا نیٹ ورک پورے پاکستان میں پھیلا ہوا ہے۔ ان کے ایک کار خاص تنویر اقبال سے راقم کی 12 سال قبل خوب ملاقاتیں تھیں۔ لاہور کے شاخت پریس میں ان کا ماہانہ جریدہ پتن اشاعت کے لیے آتا تھا۔ تب ان سے ان کی این جی او کے کام کے حوالے سے گفتگو ہوتی تھی۔ شاخت پریس ایبٹ روڈ لاہور میں تھا اور بائیں بازو کے دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کا گڑھ تھا۔ تنویر اقبال جو خود شاعر اور افسانہ نگار تھے انہوں نے تب ہی بتایا تھا کہ پتن کے زیر اہتمام الیکشن سے پہلے سروے کیسے کروائے جاتے ہیں اور پاکستان بھر میں ان کی تنظیم کا نیٹ ورک کیسے کام کرتا ہے۔

اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ پتن کے سربراہ سرور باری کا ایک انٹرویو جو ڈاکٹر معید پیرزادہ نے اپنے یوٹیوب چینل پر کیا وہ دیکھنے کے بعد یقین ہو جاتا ہے کہ سرور باری اور ان کی ٹیم کا کام کرنے کا انداز کس قدر مربوط اور منظم ہے۔ سرور باری نے بتایا ان کے سروے کے مطابق اس وقت عمران خان کی مقبولیت 66 فیصد، نواز شریف کی 13 فیصد اور بلاول بھٹو زرداری کی 3 فیصد ہے۔

اس سروے سے ایک بات تو عیاں ہو جاتی ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کو تمام تر ریاستی جبر کے باوجود ختم نہیں کیا جا سکتا۔ 9 مئی کا مبینہ طور پر خود ساختہ ناٹک بھی عمران خان کو پاکستان کے عوام کے دلوں سے نہیں نکال سکتا۔ اگرچہ کچھ تنظیموں نے عمران خان کی مقبولیت کو 70 فیصد سے بھی زائد بتایا ہے مگر ہم ان کو چھوڑ کر پتن کے سروے پر ہی یقین کرتے ہیں کہ عمران خان 66 فیصد مقبولیت پر ہیں۔ جیسا کہ سطور بالا میں لکھا کہ پتن کے کام کرنے کے انداز کو راقم ذاتی طور پر جانتا ہے اس لیے ان کی بات پر یقین کرتا ہے۔

سرور باری صاحب کا مزید کہنا تھا کہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات اپنی ساکھ پہلے ہی کھو چکے ہیں۔ جس طرح تحریک انصاف کے ساتھ الیکشن کمیشن کا سلوک جاری ہے اور ہئیت مقتدرہ جو کچھ تحریک انصاف کے امیدواروں اور کارکنوں کے ساتھ کر رہی ہے اس کی مثال پاکستان کی 75 سالہ سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ سرور باری کہتے ہیں کہ آج تک پاکستان میں آزاد، غیر جانبدار اور شفاف انتخابات نہیں ہوئے مگر 8 فروری کو ہونے والے الیکشن نے تاریخ کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اس قدر متنازعہ اور ایک جماعت تحریک انصاف کو کچلنے والے الیکشن کبھی نہیں ہوئے۔ الیکشن کمیشن کا کردار بہت شرم ناک ہے۔ ہئیت مقتدرہ نون لیگ کی سہولت کار بن کر اپنی ساکھ عوام میں عیاں کر چکی ہے۔

سرور باری کی باتیں چشم کشا ہیں۔ پہلی بار بائیں بازو کی طرف سے عمران خان کے لئے حمایت ابھر کر سامنے آئی ہے۔ ساتھ ہی ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں کھل کر کہا ہے کہ تحریک انصاف کو 8 فروری کے انتخابات کے لئے برابر کے مواقع فراہم نہیں کیے جا رہے۔ اب تو یہ سب کو نظر آ رہا ہے، نہیں نظر آ رہا تو قاضی القضاۃ اور سپہ سالار کو نظر نہیں آتا جو بُغض اور نفرت میں بھرے ہوئے ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کو بلے کا نشان پھر دے دیا مگر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پی ٹی آئی سے بلا واپس لے لیا۔ ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان پر جاری سائفر کیس کی کارروائی کو پھر کالعدم قرار دے دیا۔ ہئیت مقتدرہ نے عمران خان پر جو بھی مقدمات بنائے وہ سب بوگس ہیں۔ ان کا انجام بھی وہی ہو گا۔ افسوس ناک رویہ یہ ہے کہ ہماری ہئیت مقتدرہ نے سانحہ مشرقی پاکستان سے کچھ نہیں سیکھا۔ ملک کا مقبول ترین سیاست دان جیل میں قید ہے۔ اس کی جماعت تحریک انصاف کو کچلنے کے ہر حربے آزمائے جا رہے ہیں اور بلوچستان کے عوام کی اصل آواز کے نمائندے سخت سردی میں اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھے ہیں، ان سے بات تک نہیں کی جا رہی۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔