چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس قیصر رشید خان نے دروش میں تحصیل بار کی عمارت کا افتتاح کیا۔ اس سے پہلے انہوں نے عدالت میں چنار کا پودا بھی لگایا جو علامتی طور پر شجر کاری مہم کے ذریعے ایک پیغام ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ پودے لگائیں۔ ان کے اعزاز میں تحصیل بار ایسوسی ایشن کے اراکین نے ایک مختصرتقریب کا بھی انعقاد کیا۔ تقریب کا آغاز شیر حبیب جان ایڈوکیٹ کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ تقریب سے فرید جان، نوید الرحمان چغتائی اور تحصیل بار کے صدر اکرام حسین نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے چیف جسٹس کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ان کی آمد چترال کے لیے ایک نیک شگون ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس قیصر رشید خان نے وکلا برادری سے اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ چترال کی سڑکوں کی خراب حالت کو دیکھ کر انہیں بہت دکھ ہوا۔ انہوں نے فوری طور پر نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے چیئرمین کو نوٹس بھیج کر ان کو ہائی کورٹ میں طلب کیا۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین این یچ اے کو ہدایت کی کہ فوری طور پر چترال کی سڑکوں کو تعمیر کیا جائے اور اس کے لیے فنڈز کا بندوبست کیا جائے۔ اب ان سڑکوں کی حالت پہلے سے کافی بہتر ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چترال کے جنگلات کے تحفظ کے لیے بھی ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے تاکہ چترال کے جنگلات کی بے دریغی سے کٹائی کو بند کیا جائے۔ چترال کی معدنیات سے مقامی لوگوں کواستفادہ کرنے کے لیے بھی انہوں نے ضروری کارروائی کی سفارش کی اور اس بات پر بھی زور دیا کی اب ان معدنیات کو اونے پونے داموں فروخت نہیں کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے وکلا برادری کی طرف سے دیرینہ مطالبے پر فوری ایکشن لیتے ہوئے محکمہ صحت کے سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل کو ہدایت جاری کی کہ تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال دروش میں فوری طور پر لیڈی ڈاکٹرکو بھیجا جائے تاکہ خواتین مریضوں کوعلاج معالجے میں آسانی ہو۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر خوشخبری سنائی کہ چترال میں قائم ہائی کورٹ کے سرکٹ بنچ میں ہر ماہ ہائیکورٹ کے جج آ کر لوگوں کے مقدمات سنیں گے۔ جس سے لوگوں کو کافی آسانی ہو گی اور اب ان کو دارالقضاء سوات یا پشاور نہیں جانا پڑےگا۔ انہوں نے انتظامیہ پر زور دیا کہ مالاکنڈ ڈویژن کے ایڈیشنل کمشنر بھی ہفتہ وار چترال میں کیمپ کورٹ لگا کر انتظامی امور کے مقدمات کو نمٹائیں تا کہ یہاں کے لوگوں کو سوات نہ جانا پڑے۔ چیف جسٹس کی چترال آمد پر وکلا برادری بھی نہایت خوش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی آمد سے چترال کے بہت سارے مسائل موقع ہی پر حل ہو گئے ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے دورہ سے یہاں کافی عوامی مسائل حل ہوں گے جن کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا ایک مشکل عمل تھا۔