ماضی کی نیلگوں جھیل میں اترتے یادوں کے کنکر

ماضی کی نیلگوں جھیل میں اترتے یادوں کے کنکر


آج کچن کی کھڑکی سے باہر دیکھا تو منظر ہی اور تھا


کچھ دوست جو وقت کی گرد میں کہیں کھو گئے آواز دیتے نظر آئے، کسی سحر میں کھوئے کھوئے۔ میں نے چپکے سے دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔ افشاں بٹ نے دور سے آواز لگائی، کہاں مر گئی تھی میں ہاتھ ہلا کر کچھ کہنے ہی والی تھی کہ نصرت نے صدا لگائی۔ میں چلی میں چلی دیکھو پیار کی گلی۔



پھر جو قدم بڑھائے تو ایم۔اے بلاک کی کنٹین تھی، فاطمہ، ارفع، عرشیہ اور سدا کی کنجوس مریم تازہ سموسوں کی مہک ۔۔۔ افضل بھائی نے صدا لگائی “باجی جی چاء سموسے ریڈی نے” پھر منظر بدل گیا۔
نمل یونیورسٹی کے انگلش ڈپارٹمنٹ کی سیڑھیاں اور کافی کے کپ سے اٹھتی بھاپ سارہ اور فہد سے سیاسی نظریات پر نہ ختم ہونے والی بحث۔۔۔ ہو سٹل کے کمرے میں میڈم سے چوری چوری ہیٹر آن کیا ہی تھا کہ ساتھ والے روم کی دیوار زور سے کسی نے بجائی کہ میڈم کا چھاپہ پڑ گیا ہے۔
پھر جو نگاہ اٹھائی تو دیکھا۔ پیلا جوڑا،ہری چوڑیاں، ہاتھوں پہ مہندی ، ابٹن سے مہکتا بدن، خوشبو سے مہکتے بام ودر دل کی بے ترتیب دھڑکنیں جو کانوں میں شور مچا رہی تھی ابھی اسی سحر میں تھی کہ ۔۔۔
منظر پھر سے بدلا۔
ائیرپورٹ کے آلو داعی گیٹ پر میں نے مڑ کر دیکھا تو امی کے آنسو ،ابو جان کی اداس آنکھیں نظر آئیں میں نے آ نکھوں کی نمی کو اندر اتارا۔۔۔۔ذرد پڑتےچہرےکے ساتھ ایک بار پھر ابو جان کی طرف دیکھا تو لگا جیسے کہہ رہے ہو جاؤ میری جان تم کو خدا کے حوالے کیا۔۔۔ لاج نبھانا ہماری ۔۔۔ شکایت کا موقع مت دینا۔۔۔ اور مجھے یاد نہ کرنا۔۔۔ کہ تم بہت لاڈلی ہو میری۔۔۔ ابھی کل کی تو بات ہے تم میرے آنگن میں گڑ یوں کا گھر بناتی تھی۔۔۔ جاؤ اور اب اپنی گر ہستی بساؤ ۔۔ مجھے لگا ابھی ضبط کا بندھن ٹوٹ جائے گا۔۔۔۔
میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دی۔۔۔
اور آخری بار سب کو اپنےدل میں کہیں اندر اتار لیا کہ اب جانے کب آنا ہو اس دیس میں؟ چار دناں دا پیار او ربّا
بڑی لمبی جدائی ۔۔۔ لمبی جدائی۔۔۔



اب کہ دیکھا تو ایک شاندار خو برو گہری آنکھوں والاانسان میرے سامنے کھڑا تھا۔۔۔ دل زور سے دھڑکا کہنے کو بہت سے الفاظ دل میں مچل رے تھے پر کان ہمہ تن گوش تھے ۔ کہ ابھی جنبش کی تو ۔۔۔ وقت تھم سا گیا تھا۔۔۔ میں نے سر اٹھا کے دیکھا ۔۔۔
وہ کہنے ہی والا تھا کہ ایسا حسین چہرہ میں نے آج تک نہیں دیکھا تمہارے ہا تھ کتنے نازک ہیں ۔۔۔ میں نے اپنے خشک اور مرجھاتی ہوئی جلد والے ہاتھوں کو دیکھا۔۔۔۔ تمھاری آنکھیں سمندر جیسی ہیں۔۔۔ میں نے اپنی سیاہ حلقہ ذدہ آنکھوں کو چھوا۔۔۔ تمھاری ریشمی زلفوں کی چھاؤں میں زندگی بسر کرنے کو جی چاہتا ہے ۔۔۔ میں نے اپنے بے رونق اور بےتوجہی کا شکار ہوتے بالوں کو سمیٹا۔۔۔ لگا پانی میں کسی اجنبی عورت کا عکس دیکھ رہی ہوں ۔۔۔ جو کسی پرانے برتن جیسی ہے ۔۔۔
ایکدم آواز آئی۔۔۔ آج کچھ کھانے کو بھی ملے گا یا نہیں؟ دو گھینٹے سے کھڑ ی باہر کیا دیکھ رہی ہو میں نے چونک کی دیکھا تو میں کچن کی کھڑکی کے پاس ساکت کھڑی تھی ہانڈی جل کر خاکستر ہو چکی تھی اور ۔۔۔ دھواں پھیل رہا تھا۔۔۔۔ میں نے جلدی سے کھڑکی بند کر دی۔