الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے الزامات کا نوٹس لیتے ہوئے ان کی حالیہ تقاریر کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔
یہ فیصلہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں عمران خان کے ادارے پر حالیہ الزامات کا جائزہ لیا گیا اور الیکشن کمیشن نے سابق وزیراعظم کے الزامات کا نوٹس لیا۔
الیکشن کمیشن نے چیئرمین پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو خط لکھ کر عمران خان کی تقاریر کا ریکارڈ طلب کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ عمران خان کی لیہ اور بھکر میں تقاریر کا ریکارڈ فراہم کیا جائے جبکہ آٹھ جولائی کو خوشاب میں کی جانے والی تقریر کا ریکارڈ بھی مانگا گیا ہے۔
دوسری جانب ترجمان الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری کی جانب سے سوشل میڈیا پر لگائے جانے والے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو حمزہ اور مریم سے چھپ کر ملنے کی ضرورت نہیں، سیاستدان خود ملنے آتے ہیں، الزام لگانا آسان ہے، ثبوت ہیں تو سامنے لائیں۔
ترجمان نے کہا کہ الیکشن کمیشن اشتعال اور دباؤ میں آئے بغیر اپنا آئینی کردار ادا کرتا رہےگا، پنجاب کے ضمنی انتخابات میں شفاف الیکشن کو یقینی بنائیں گے، ہم کسی مسٹر ایکس وائی زیڈ کو نہیں جانتے، ہمارا کام شفاف غیرجانبدارانہ الیکشن کرانا ہے۔
خیال رہے کہ مرکزی سینئر نائب صدر تحریک انصاف ڈاکٹر شیریں مزاری نے اہم بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ دھاندلی میں معاونت کے مرتکب افراد یا اداروں کیخلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔
شیریں مزاری نے کہا تھا کہ اختیارات سے تجاوز کے مرتکب افسران کو کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔ ہمیں دیوار سے مت لگاؤ، ہم صرف آزادانہ اور منصفانہ انتخاب چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ عوام تحریک انصاف کیساتھ ہیں۔ ہم تبدیلی سرکار کی امریکی سازش کے کسی منصوبہ ساز کو ان کے ووٹ پر ڈاکا ڈالنے کی قطعاً اجازت نہیں دینگے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف بارہا چیف الیکشن کمشنر اور مسٹر X اور مسٹر Y کو جھوٹی مریم اور حمزہ شریف کیساتھ مل کر اپنی دھاندلی کی کوششیں ترک کرنے کا کہہ چکی ہے۔ مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔
ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ اب سے انتخاب کے روز نتائج کے اعلان تک، اگر دھاندلی کی کوششیں دکھائی دیں تو چپ نہیں بیٹھیں گے۔ کسی فرد یا ادارے کی جانب سے مداخلت کا شائبہ بھی ہوا تو بھرپور ردعمل دیں گے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ لاہور اور ملتان میں ان کے دفاتر کے باہر یا جہاں ضرورت محسوس کریں گے پرامن احتجاج کا اپنا حق استعمال کریں گے۔ کوئی بھی سرکاری افسر جو آئینی حدود میں اپنے فرائضِ منصبی سے تجاوز کا مرتکب پایا گیا، کٹہرےمیں کھڑا کیا جائے گا۔