72 کھرب 94 ارب 90 کروڑ روپے کے وفاقی بجٹ میں معذور افراد پھر نظر انداز

72 کھرب 94 ارب 90 کروڑ روپے کے وفاقی بجٹ میں معذور افراد پھر نظر انداز
سرکار نے معذور افراد کو ایک بار پھر نظر انداز کر دیا ہے۔ پیش کردہ وفاقی بجٹ میں معذور افراد کا ذکر تک نہیں کیا گیا ہے۔ اس بات سے ایک بات تو واضح ہوگی ہے کہ جب تک معذور افراد سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنتے تب تک کوئی بھی ان کا ذکر نہیں کرے گا۔ معذور افراد کی موجودگی کا احساس تب ہی ہوگا جب معذور افراد این جی اوز کے فریب سے جان چھڑا کر سیاسی میدان میں نکلیں گے۔

یہ این جی اوز کا آسیب ہی ہے جس نے معذور افراد کو مدہوش کر رکھا ہے اور معذور افراد اپنے حقوق، مفادات اور حالت زار سے بے پرواہ این جی اوز کی دوڑ میں شامل ہیں کہ کسی طریقے سے گرانٹ مل جائے اور وہ بھی غیرملکی دورے کریں اور مال بنائیں۔ معذورافراد کو اب ہوش آجانا چاہیے کہ وہ این جی اوز کے سیراب سے نکل کر متحد ہوجائیں اور ایک جھنڈے تلے جمع ہو کر سیاسی جدوجہد کریں اور ریاست سے اپنے حقوق لیں۔

پاکستان کی تاریح میں بے شمار سیاسی جماعتیں بنی ہیں مگر آج تک کسی سیاسی جماعت نے معذور افراد سمیت نچلے طبقہ سے کسی فرد کو پارٹی سنٹرل کمیٹی میں شامل نہیں کیا ہے۔ اپنے منشور میں کوئی ذکر تک نہیں کیا ہے۔ ہمیشہ نظر انداز کیا ہے کہ جیسے یہ سانس لیتے زندہ انسان نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی ان کے حقوق ہیں۔ معذور افراد کو معاشرے کا عضو معطل سمجھا جاتا ہے۔ نچلے طبقے کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

پاکستان میں مساجد، عبادت گاہوں سمیت عمارتوں میں معذور افراد کے لئے رسائی کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ ایسے ہی جیسے معاشرے میں معذور افراد کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ سماجی معاملات میں بھی معذور افراد کی شمولیت سے گریز کیا جاتا ہے۔ سکول، کالج اور یونیورسٹیوں سے لے کر مدرسوں تک معذور افراد کی سہولیات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا بھی یہی حال ہے کہ کوئی ویگن، ٹیکسی، بس اور ریل گاڑی ایسی نہیں ہے جس پر معذور افراد کی آسانی کے لئے کوئی سپیشل کوڈ ہو۔

پاکستان کے سرکاری ادارے، پارلیمنٹ، سینٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیاں، وزرائے اعلیٰ ہاوسز اور ایوان صدر، وزیراعظم میں معذور افراد کے لئے کوئی سہولت اور آسانی نہیں ہے۔ جس کا صاف صاف مطلب ہے کہ پاکستان میں معذور افراد کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے اور کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب معذور افراد کی حالت زار دیکھ کر این جی اوز خونخوار گدھوں کی طرح معذور افراد کے دکھ درد، مشکلات سے بھر پور فائدہ اٹھانے میں لگی ہوئی ہیں۔ معذور افراد کے اندر سے معذور افراد کے مصنوعی لیڈر بن کر معذور افراد کے نام پر کاروبار کر رہے ہیں۔ جنہوں نے کروڑوں کی جائیدادیں بنالی ہیں، بنک بیلنس ہے۔ گاڑیاں اور کوٹھیاں ہیں۔ سب کچھ معذور افراد کے نام پر بنایا ہے۔ ان کے حالات تو بدل گئے ہیں۔ انہوں نے امریکہ، برطانیہ اور کئی ممالک بھی دیکھ لیے ہیں مگر کوئی بتا سکتا ہے کہ معذور افراد کے ان مصنوعی لیڈروں کی قیادت میں اجتماعی طور پر معذور افراد کو کیا فائدہ ہوا ہے۔ معذور افراد کے کیا حالات تبدیل ہوئے ہیں۔ ماسوائے این جی اوز کے مالکان کے، بالکل کسی کے حالات نہیں بدلے ہیں۔

مساوات پارٹی کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ معذور افراد کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا جائے۔ معذور افراد کے نام پر کاروبار کو روکا جائے۔ اجتماعی طور معذور افراد کے حقوق کی حصول یابی کے لئے جدوجہد کی جائے۔ مساوات پارٹی کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ معذور افراد کو سیاسی عمل کا حصہ بنایا جائے اور حکمران طبقات اور سیاسی اشرافیہ کو بتایا جائے کہ معذور افراد بھی تمہاری طرح سانس لیتے زندہ انسان ہیں۔ انہیں بھی زندگی کی تمام بنیادی ضروریات و سہولیات کی ضرورت ہے۔

سینٹ، قومی اسمبلی سمیت ملکی قانون ساز اور فیصلہ ساز اداروں میں معذور افراد بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ نچلے طبقات بھی پاکستان کے شہری ہیں۔ ملکی وسائل اور دولت پر ان کا بھی اتنا حق ہے جتنا حق سرمایہ دار، جاگیر دار اور بالادست طبقات کا ہے۔

مساوات پارٹی اس لئے بھی ضروری ہے کہ معذور افراد سمیت دیوار سے لگائے گئے نچلے طبقات کا احساس محرومی دور کیا جائے۔ خود اعتمادی کو بحال کیا جائے۔ ہر معذور فرد کے لئے پاکستان کو قابل رسائی بنایا جائے۔ روزگار کے مواقع تلاش کیے جائیں اور یکساں مواقع کے لئے قانون سازی کی جائے۔ معذور افراد کے لئے سوفیصد ملازمتیں اور بنیادی انسانی سہولیات بذمہ ریاست کا قانون پاس کرایا جائے، تاکہ معذور افراد اور نچلے طبقات بھی قومی معاملات میں اپنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کر سکیں اور معاشرے کا اہم اور متحرک عضو بن کر زندگی گزاریں۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔