سمجھ نہیں آ رہی کہاں سے بات شروع کی جائے۔ ہم کیا ہماری اوقات کیا؟ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ؟ رہنے کے لئے سب سی اچھی بھی انسان کی اوقات ہوتی ہے۔ ہمیں بھی اپنا قیام وہیں رکھنا چاہئے۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سننے بیٹھا ہے؟ لیکن کوئی سنے نہ سنے ہم چپ نہیں رہیں گے۔ نہ رہیں گے نہ کسی کو رہنے کا مشورہ دیں گے۔
بچپن سے ہماری ایک عادت تھی کہ چھوٹے بھائی کو خوب کوٹتے تھے۔ طبیعت ذرا ہتھ چھٹ تھی۔ لیکن اسی بھائی کو پارک میں کھیلتے ہوئے کوئی بڑا لڑکا ہاتھ بھی لگاتا تو ہم اپنے ہاتھ پاؤں دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتے۔ اس کو وہ چھٹی کا دودھ یاد دلاتے کہ آئندہ ہمارے بھائی کا نام بھی نہ لیتا۔ انسانی فطرت ہے کہ اپنے گھر میں کچھ بھی کرے لیکن گھر سے باہر والے کی مداخلت برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ صرف ہماری کہانی نہیں سب ہی کی جبلت ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ معیشت کے مسئلے ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بھی کسی سے چھپی نہیں۔ کرپشن کا بول بالا ہے۔ کچھ دہائیوں سے دہشتگردی کا عفریت بھی ہماری جان کا عذاب بن چکا ہے۔ رہی سہی کسر ہم پاکستانیوں کی آپسی نفاق نے پوری کر دی۔ سڑکوں پر گاڑی اوورٹیک کرنے کا مسئلہ ہو یا بجلی نہ آنے پر واویلا برپا کرنا ہو، قسم والی بات ہے جو ہم کبھی ایک دوسرے سے تعاون کر لیں۔
باوجود ان تمام مسئلے مسائل کے، ہم سب اسی بات پر اتفاق کریں گے کہ اس ملک سے باہر کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ہمارے ہی گھر میں گھس کر ہم ہی کو کوٹے۔ یوں تو یہ کوئی نیا واقعہ نہیں لیکن ہم گڑے مردے نہیں اکھیڑیں گے اور آج کا نوحہ ہی بیان کریںگے۔ 7 اپریل کو امریکہ کے ملٹری اتاشی کرنل جوزف کی بات کریں گے جنہوں نے سگنل توڑتے ہوئے نہ صرف ایک موٹر سائیکل سوار کو اپنی بھاری بھرکم گاڑی کے نیچے دے دیا بلکہ چند ہی ہفتوں میں خصوصی طیارے پر اپنے ملک بھی چلتے بنے۔
جوزف صاحب کا جس ملک سے تعلق ہے وہاں نہ انسانی جان اتنی سستی ہے اور نہ ہی ٹریفک کا سگنل اتنا کمزور
جوزف صاحب کا جس ملک سے تعلق ہے وہاں نہ انسانی جان اتنی سستی ہے اور نہ ہی ٹریفک کا سگنل اتنا کمزور۔ سفارتی استشنیٰ بھی کمال چیز ہے جو ایک امریکی کو ہی حاصل ہے۔ کیا یہی استشنیٰ ایک پاکستانی سفارتکار کو بھی حاصل ہوگا؟ کہنے کو دہشتگرد ہم ہیں اور امن کے علمبردار یہ نیلی آنکھوں واکے امریکی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے جنہوں نے کرنل صاحب کو ای سی ایل میں ڈالا اب جھاگ بن کر بیٹھ گئے ہیں۔ بھینس تو اسی کی ہے جس کی لاٹھی ۔ اور اس دودھ دینے والی بھینس کا دودھ اور گوشت تو یہی گدھے نوچیں گے۔
بات صرف اتنی سی ہے جو مشہور ناول 'اینمل فارم' میں کہی گئی تھی۔
'تمام جانور برابر ہیں مگر کچھ جانور زیادہ برابر ہیں۔'
امریکہ بہادر وہی زیادہ برابر والے جانور ہیں۔ ان کی روس سے جنگ کے پیچھے ہم نے اپنی ایک نسل دہشتگردی کا ایندھن بنا دی۔ ان کی افغان جنگ میں بھی قربانی کا بکرا ہم ہی بنے۔ اور لاکھوں جانیں لٹا کر بھی دہشتگردی کے سہولت کار ہی کہلائے۔ ان کے سفارتکار بھی چاہیں تو ہمیں اپنی گاڑیوں کے نیچے کچل کر خصوصی طیارے پر اپنے ملک روانہ ہو جائیں۔ قیمت انسانی جان کی نہیں انسانی پاسپورٹ کی ہے۔ جو جی چاہے کریں۔ جسے جی چاہے کچلیں۔ کون پوچھے؟ کون ٹوکے؟
لیکن گستاخی معاف، ہم آج اپنی اوقات میں نہ رہیں گے۔ آپ بھلے ہمیں کسی استثنیٰ کے لائق نہ جانیں لیکن ہم اپنی آواز بلند کریں گے۔ اپنے بھائی کو خود لاکھ کوٹیں، پارک میں کھیلنے والے کسی بڑے لڑکے کو یہ حق نہ دیں گے۔ کوئی سنے نہ سنے۔ کوئی مانے نہ مانے۔ یہ سوال تو لازمی بلند کریں گے
'اصل دہشت گرد کون؟'
جواب دینا نہ دینا آپ کی صوابدید ہے۔