Get Alerts

سینیٹ اجلاس، ارکان کی پی آئی اے ہیڈکوارٹر کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کی مخالفت

سینیٹ نے قومی پرچم بردار ایئرلائن (پی آئی اے) کا ہیڈ آفس کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی ہے۔

وفاقی وزیر برائے خلا بازی غلام سرور خان کا کہنا ہے کہ حکومت کا پی آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد منتقل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

تاہم، انہوں نے حزب اختلاف کی جانب سے ایئرلائن کا ہیڈکوارٹر کراچی میں قائم رکھنے کے مطالبے کی قرارداد مسترد کر دی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹ میں پارلیمانی رہنماء شیری رحمٰن اور حزب اختلاف کے دیگر رہنمائوں نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے اس امر پر حیرانی کا اظہار کیا کہ حکومت قرارداد کی مخالف کیوں کر رہی ہے جب کہ حقیقت میں اس کا پی آئی اے کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد منتقل کرنے کا کوئی ارادہ ہی نہیں۔



شیری رحمٰن نے کہا، چند روز قبل مسلم لیگ نواز کے سینیٹر مشاہداللہ خان کی سربراہی میں قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کا اجلاس ہوا جس میں اس بارے میں بات کی گئی تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ درحقیقت حکومت چاہتی کیا ہے لیکن وزیر موصوف تیسری بار بھی اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے اجلاس سے غیر حاضر رہے۔

شیری رحمٰن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت پر ہر سروس اور اتھارٹی کو سینٹرلائز کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔

انہوں نے کہا، قومی ہیڈ لائنز کا ہیڈکوارٹر ابتدا سے ہی کراچی میں ہے، جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پاکستان کا سب سے بڑا ایئرپورٹ ہے اور رہے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنماء نے کہا کہ قومی ایئرلائن کے عملے اور حکام کی ایک بڑی تعداد کو اسلام آباد منتقل ہونے کے احکامات موصول ہوئے ہیں جن میں عملے کے ارکان کے علاوہ، پائلٹس اور افسران بھی شامل ہیں۔

انہوں نے قومی ایئرلائنز کے عملے اور حکام کے اسلام آباد ٹرانسفر سے متعلق کہا کہ عملے کے ارکان، پائلٹس اور افسران کو ایک خط موصول ہوا ہے جو انہیں اسلام آباد منتقل کیے جانے سے متعلق ہے۔



شیری رحمٰن نے کہا، دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا، حکومت کیوں راتوں رات پی آئی اے کے 70 حکام کو اسلام آباد منتقل کر رہی ہے؟

انہوں نے کہا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کا کوئی خفیہ ایجنڈا ہے۔ اگر حکومت کے پاس اس حوالے سے کوئی وضاحت موجود ہے تو یہ اس پر بات کرنے کا موزوں ترین وقت ہے۔

شیری رحمٰن نے کہا، پی آئی اے میں سی بی اے کے کردار کو محدود کر دیا ہے اور ایسنشیل سروسز ایکٹ نافذ کر کے یونینز کا گلا گھوٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت یہ واضح کرے کہ اس نے کس بنیاد پر ایسا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔