کیا کشمیری نوجوانوں کو اب خون آلود مزاحمت کو چھوڑ کر بھارت کے قومی دھارے میں شامل ہوجانا چاہیئے؟

کیا کشمیری نوجوانوں کو اب خون آلود مزاحمت کو چھوڑ کر بھارت کے قومی دھارے میں شامل ہوجانا چاہیئے؟
جانے کیوں لوگوں کو لگتا ہے کہ کشمیر کا ایک ہی حل ہے۔ کشمیر بزور شمشیر۔ اسی بے مقصد نعرے کے پیچھے لگ کر ہمارے 72 سال برباد ہو گئے ہیں۔ قوموں میں آزادی کے بعد کے سال ریاستی بیانیہ کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں اسی بیانیے کو لے کر قومیں چلتی ہیں اور ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے ہم سے دو سال بعد آزاد ہونے والا ملک آج دنیا میں کس حد تک معتبر مقام پر ہے امریکہ جیسی سپر پاور آج چین کے ساتھ سرد جنگ میں مصروف ہے۔ مگر ہمارے ہاں چونکہ الٹی گنگا بہتی ہے ہم آزادی کے بعد ایک بے مقصد قومی بیانیہ میں اپنا وقت ضائع کیا، نہ کشمیر کا مسلہ حل ہوا نہ قومی بیانیہ تبدیل ہوا۔

چار جنگیں لڑنے کے بعد بھی نتیجہ وہی دھاک کے تین پات۔ دونوں ملک اسلحے کی اندھی دوڑ میں ایسے غرق ہوئے اس بات کو فرمواش کر گئے۔ اصل دشمن تو غربت ہے، دونوں ایٹمی طاقت بن گئے۔ مگر  جنوبی ایشیا کے کرڑروں انسانوں کو غربت کی نچلی لکیر سے اوپر نہ اٹھا سکے ۔ آج جنوبی ایشیا کا بھوکا ننگا انسان بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہے اس کے دونوں ہاتھ خالی ہیں اور آسمان کی طرف اٹھے ہوئے ہیں۔ وہ  خدا سے روٹی مانگ رہا ہے مگر زمینی خدا اسے روٹی کی بجائے گولہ بارود کھلا رہے ہیں۔ کیا بطور قوم اب ریاستی بیانیہ تبدیل کرنے کا سوچا جا رہا ہے؟ کیا اب بھی ہم غزوہ ہند کے منتظر ہیں؟

آنے والی نسلوں کو بھی گولہ بارود کا تحفہ دے کر جائیں گے۔ جو دنیا بعد از کرونا ہو گی وہ تبدیل شدہ ہو گی کیا سرحد کے دونوں اطراف کے ارباب اختیار اس بات پر سوچیں گے؟  جو وبا ہم پر نازل ہوئی اس میں ہمیں کس  کس چیز کی ضرورت محسوس ہوئی؟ ایک جدید ٹینک کی یا ونٹی لیٹر کی؟ غربت کی لکیر کے نچے دھنسے لوگوں کو حکمران اشرافیہ سے پوچھنا پڑے گا۔ اندھی نفرت میں مبتلا رہنے کی پالیسی اب بدل دو۔ اربوں ڈالر اسلحے پر نہیں انسان سازی پر لگاؤ۔ آخر کب تک  نفرتوں کی اندھی دوڑ میں بھاگتے رہیں گے جس کی کوئی منزل نہیں۔ اس خونی بھاگ دوڑ کا کوئی انت نہیں۔

ایک دن تو اس خطے کے بھوکے ننگے انسان جاگیں گے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ وادی کشمیر کے 80 لاکھ انسانوں کو اپنی سوچ پر نظر ثانی کرنی ہو گی  کب تک وہ اپنے نوجوانوں کی لاشیں اٹھائے ماتمی جلوس لیے پھرتے رہیں گے۔ کشمیر کی سیاسی قیادت نے کبھی سیاسی بصیرت کا ثبوت نہیں دیا۔ وہ 72 سالوں میں فیصلہ نہیں کر پائے کہ آخر کرنا کیا ہے اہک ہی نعرے کے پیچھے لگ کر  دونسلوں کی زندگی برباد کر دی۔

کیا انہوں نے سوچا کہ کیوں وہ باقی  بھارت کے مسلمانوں کی طرح قومی دھارے میں شامل نہیں ہو سکے؟  دوسال قبل کشمیر کے دو نوجوان  بھارت کے قومی منظر نامے میں نمودار ہوئے ۔اہک تھے پرویز رسول جو بھارتی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنے اور دینا کی سب سے مہنگی کرکٹ لیگ اہی پی ایل تک پہنچنے دوسری ادکارہ زہراہ وسیم جنکو بالی ووڈ کے سپر اسٹار ایکٹر اور فلمساز عامر خان نے اپنی دو فلموں ۔دنگل۔اور سکریٹ سپر اسٹار میں چانس دیا۔  زہرہ وسیم ایک دم اسٹار بن گئی ۔ مگر اس کے بعد خدا جانے کیا ہوا ان کس قسم کا سماجی دباؤ ڈالا گیا کہ پرویز رسول اور زہرہ وسیم بھارت کے قومی منظر نامے سے غائب ہو گئے۔ یقیناً اپک غلط روایت کا آغاز ہوا۔ کیا وادی کشمیر کے نوجوانوں کے مقدر میں صرف ہتھیار اٹھانا ہی رہ گیا ہے۔

پرویز رسول اور زہرہ وسیم نوجوانوں کے نئے رول ماڈل بن سکتے تھے۔ مگر ایسا نہیں کرنے دیا گیا۔ یہ صرف پرویز رسول اور زہرہ وسیم کی بدقسمتی نہیں وادی کشمیر کے تمام نوجوانوں کی بد قسمتی ہے ۔ میں یہ بات پورے وثوق سے لکھ رہا ہوں۔ جانتا ہوں کہ یہ  ہمارے قومی بیانیہ کے خلاف ہے۔ مجھےاس کا شدید ردعمل بھی مل سکتا ہے۔ مگر ایک کشمیری پاکستانی کے طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ کشمیر پر ہمارے ریاستی بیانیہ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ 72 سال ہم نے اندھی نفرت میں گزار دہے  ہی بات کشمیر کے نوجوانوں کو اپنی قیادت سے پوچھنی پڑے گی کہ اس بیانیہ نے ہمیں کیا دیا۔ لا پتہ افراد، غبرہت، جہالت، گرفتاریاں اور ماتمی جلوس اور جنازے۔ راستے کبھی بند نہیں ہوتے۔ صرف نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ کشیمری قیادت دہلی سرکار سے کوی آبرو مند معاہدہ کر کے اپنی زندگیوں کو آسان بنا لے اور وادی کشمیر کے نوجوان اپنے ہیروز پرویز رسول اور زہرہ وسیم کوبنا کر قومی دھارے میں شامل ہوجائیں

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔