سنجیو سرف بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت ہیں۔ ان کا تعلق راجستھان سے ہے۔ وہ مہارشٹرا کے شہر ناگپور میں ایک کاروباری خاندان میں پیدا ہوئے۔ سنجیو نے ابتدائی تعلیم سکینڈیا سکول گوالیار سے حاصل کی اور آئی آئی ٹی کھراگپور سے 1980 میں گریجویشن کی۔ گریجویشن کے بعد سنجیو نے خاندانی کاروبار کو سنبھال لیا۔ 1984 میں پولی پلیکس کارپوریشن کی بنیاد ڈالی جو پوری دنیا میں پولیسٹر فراہم کرتی ہے۔ اس کے بعد سنجیو سرف نے رینیوایبل ہائڈرو الیکٹرک انرجی اور مانوپرتا کے نام سے ایک مشہور قانونی معلومات فراہم کرنے والے کاروباروں کا بھی آغاز کیا۔
جب سنجیو سے پوچھا گیا کہ بھارت کا ایک کامیاب بزنس مین جس کی مادری زبان بھی اردو نہیں ہے وہ اردو میں کیسے اتنی دلچسپی لینے لگ گیا تو سنجیو نے جواب دیا کہ وہ اردو کو بچپن سے ہی بہت پسند کرتا تھا کیونکہ اس کے پلنے بڑھنے کے دوران اس کے والد گھر پر غزلیں سنتے تھے۔ لیکن تعلیم کے حصول اور کاروباری میں مصروفیت نے اسے اردو سیکھنے کا مناسب وقت نہیں دیا تھا۔ جب کاروباری اور خالصتاً صنعتی کام نے تخلیقی تشنگی کو کسی حد تک مطمئن کیا تو سنجیو اردو ادب اور شاعری کی جانب کھنچتے چلے گئے اور پھر اردو زبان کے ساتھ عشق میں مبتلا ہو گئے۔ بعد ازاں جب کاروبار مستحکم ہوا اور اس نے پھلنا پھولنا شروع کیا تو سنجیو نے کاروبار سے پھر تھوڑی توجہ اور وقت نکال کر اردو زبان پر توجہ دینی شروع کر دی۔
اس عمل کے دوران سنجیو کو احساس ہوا کہ انٹرنیٹ پر اس حوالے سے بہت زیادہ مواد موجود نہیں تھا اور جو مواد موجود تھا وہ ادھورا، غیر معتبر اور اردو سکرپٹ میں موجود تھا۔ سنجیو نے سوچا کہ اس کی طرح کے لاکھوں لوگ اردو سے محبت کرنے کے باوحود مواد تک رسائی حاصل نہ کر پانے کے باعث تشنہ ہی رہ جاتے ہیں اور یہاں سے اسے اردو کو ڈیجیٹائز کرنے کا خیال آیا۔ سال 2013 میں ریختہ فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد اردو ادب کو فروغ دیتے ہوئے ان افراد تک اردو شاعری کی رسائی کو ممکن بنانا تھا جو اردو سکرپٹ پڑھنے سے قاصر تھے۔
جشن ریختہ 2015 اور 2016 کے علاوہ ریختہ فاونڈیشن مختلف اوقات میں نت نئے قسم کے ایونٹ کا انعقاد کر کے اردو کی مختلف قسموں کو اجاگر کرتی رہتی ہے۔ ریختہ فاؤنڈیشن نے بیت بازی مشاعرے بھی منعقد کروائے ہیں اور بیشمار نوجوان شعرا کی شاعری کی ریکارڈنگ اپنے سٹوڈیو میں کی ہے۔ اس کے علاوہ ریختہ نے آئی آئی ٹی دہلی میں ایک مزاحیہ مشاعرے کا انعقاد بھی کیا تھا جسے شائقین کی جانب سے بھرپور پذیرائی ملی۔
سنجیو جشن ریختہ میں شرکا کیلئے پاکستان سے نامور دانشوروں کو خصوصی طور پر بھارت بلاتے ہیں۔
جشن ریختہ اس قدر مشہور ہو چکا ہے کہ اب شائقین ہمہ وقت اس کا انتظار کرتے ہیں۔ سنجیو کے پسندیدہ شاعر مرزا غالب ہیں جن کی وجہ سے سنجیو اردو شاعری کی طرف کھنچے چلے آئے۔ سنجیو کا کہنا ہے کہ "میں نے اپنی زندگی ریختہ کیلئے وقف کر دی ہے"۔
زمان خان نے راجیوسرف کا ایک انٹرویو کیا تھا جو یہاں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
زمان خان: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کامیاب اقدام ہے؟
سنجیو سرف: جشن 2015 میں پہلی بار منعقد کیا گیا تاکہ اردو کے چاہنے والے اس کی تخلیقی اور روایتی چاشنی سے لطف اندوز ہو سکیں۔ یہ ایک چھوٹا سا قدم تھا اور میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ اس قدر بڑا قدم بن جائے گا۔ جشن منعقد کرنے کے ایک سال کے اندر ہی ویب سائٹ کا وزٹ کرنے والوں کی تعداد دو لاکھ سے بڑھ کر آٹھ لاکھ تک جا پہنچی اور اس جشن نے اردو زبان کے چاہنے والوں کی توجہ اور داد وصول کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت میں فلم، ٹیلی وژن اور موسیقی کے شعبوں سے وابستہ نمایاں افراد کی بھی داد سمیٹی۔
ضیا محی الدین، گلزار، گوپی چند نارنگ، زہرہ نگاہ، جاوید اختر، مظفر علی، شمس الرحمان فاروقی، انور مسعود، عرفان خان اور دیگر کئی نمایاں افراد نے اسے خوب سراہا۔
زمان خان: آپ نے کتابیں شائع کرنا بھی شروع کر دی ہیں؟ کیا آپ چند کتابوں کے نام بتا سکتے ہیں؟ اور کتابیں شائع کرنے کیلئے انہیں منتخب کرنے کا کیا طریقہ کار ہے؟
سنجیوسرف: ہم نے ابھی تک تین کتابیں شائع کی ہیں۔ دو اردو اور ایک ہندی میں۔ اردو کتابوں میں احمد مشتاق کی اوراق خزانی اور شمیم حنفی کی آخری پہاڑ کی دستک شامل ہیں۔ جبکہ ہندی کتاب کا نام "غزل اس نے چھیڑی ہے" جسے ہم جشن ریختہ 2016 میں منظر عام پر لائے اور اس کو ایڈٹ کرنے کا فریضہ فرحت احساس نے سرانجام دیا ہے۔ ہمارا اپنا ایک ادارتی بورڈ ہے جو کتابوں کو منتخب کرنے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے اور ہماری ریسرچ ٹیم اس کام میں ان کی معاونت کرتی ہے۔
زمان خان: آپ کی ریختہ کے حوالے سے مستقبل کی کیا حکمت عملی ہے؟
سنجیو: میں نے پہلے ہی اپنی زندگی ریختہ کیلئے وقف کر دی ہے۔ ہمارے پاس ایک زبرست ٹیم موجود ہے جو انتہائی جوش اور جذبے کے ساتھ کام کرتے ہوئے ریختہ کو نئی بلندیوں کی جانب لے کر جانا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اردو ادب کے بڑے نام ہمیں بھرپور مدد اور معاونت فراہم کر رہے ہیں تاکہ ہم اردو کو اس کی توجہ اور تعریف جو اس کا حق ہیں دلوانے میں کامیاب ہو جائیں۔ جشن ریختہ کی کامیابی اور اس پر ملنے والے مثبت ریسپانس کے بعد ہمارا ارادہ ہے کہ ہم اس جشن کو مزید شہروں میں بھی منعقد کریں۔ ہم بہت جلد ہی آن لائن اردو سیکھنے کی اپلیکیشن کا افتتاح بھی کرنے والے ہیں۔ ہم اردو کے چاہنے والوں کیلئے ریختہ کی ایک موبائل اپلیکیشین بھی بنا رہے ہیں تاکہ وہ جب اور جہاں چاہیں اپنی پسندیدہ شاعری سے لطف اندوز ہو سکیں۔
زمان خان: آپ پاکستان اور بھارت سے شرکا کیسے منتخب کرتے ہیں؟
سنجیو: ہم شرکا کو پروگرام کے فارمیٹ اور اس کے سیشنز کو مد نظر رکھتے ہوئے منتخب کرتے ہیں۔ ان کی مقبولیت دوسرا اہم پہلو ہے جو انہیں منتخب کروانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ چونکہ ریختہ دنیا کی سب سے بڑی اردو آن لائن لائبریری ہے اس لئے دنیا بھر سے بڑے بڑے نام ہمارے ساتھ منسلک ہیں اور مستقبل میں بھی اسی طرح منسلک رہنا چاہتے ہیں۔
زمان خان: یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور رواداری کا فروغ کیسے کر سکتی ہے؟
سنجیو: ہماری ویب سائٹ ریختہ کو وزٹ کرنے والوں کی دوسری بڑی تعداد پاکستانیوں کی ہے۔ زبان سے محبت اور اس سے وابستگی دونوں ممالک کے اردو کو چاہنے والی آبادی کو یکجا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ پاکستان سے صرف اداکار، گلوکار اور شعرا ہی جشن ریختہ میں شرکت نہیں کرتے بلکہ ایسے بہت سے افراد ہیں جو محض اس لئے بھارت آتے ہیں کہ وہ جشن ریختہ کا حصہ بن سکیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اردو سے دونوں ممالک کے لوگوں کی ہمدردی دونوں ممالک کے مابین امن اور بھائی چارے کے فروغ کا باعث بنے گی اور دونوں جانب سے اردو کی پذیرائی بھی کی جائے گی۔ شعرا تو ویسے بھی محبت کے سفیر ہوتے ہیں اور مشترکہ ورثہ لوگوں کو بھی قریب لانے کا باعث بنتا ہے جو امن اور رواداری کے فروغ کا بھی مؤجب بنتا ہے۔
زمان خان: آپ کا پسندیدہ لکھاری کون ہے؟
سنجیو: مرزا غالب۔ کیونکہ ان کی شاعری ہر صورتحال کی مناسبت سے زبردست ہے اور ہر قسم کے جذبے کی ترجمانی کرتی ہے۔ میری نوجوانی سے لیکر آج تک وہی میرے پسندیدہ ہیں۔ بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ غالب کی وجہ سے ہی مجھے شاعری میں دلچسپی پیدا ہونا شروع ہوئی۔
زمان خان: بھارت میں اردو کا کیا مستقبل ہے؟
سنجیو: اردو زبان بھارت میں اعلیٰ روایات، ثقافت اور اقدار کی بہت قدیم تاریخ رکھتی ہے۔ جہاں تک اس کے مستقبل کا سوال ہے تو تقسیم سے قبل کا انڈیا اردو کی جنم بھومی تھا اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت میں اردو کا مستقبل بیحد تابناک ہے۔ ہماری ویب سائٹس کےاعداد و شمار کے مطابق ریختہ کی ویب سائٹ پر آنے والوں میں سے 70 فیصد افراد 18 سے 35 سال کی عمر کے لوگ ہیں اور یہ تعداد بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ یہ جوش و جذبہ اور جشن ریختہ میں شرکا کی بڑی تعداد اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اردو بطور زبان اور میڈیم لوگوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہے۔ ہمارے نزدیک اردو کو پھر سے نئی زندگی ملی ہے، خصوصی طور پر اس طبقہ میں جو اردو بیک گراؤنڈ سے تعلق نہیں رکھتا۔
زمان خان: کیا آپ نے پاکستان میں بھی اسی قسم کا جشن منعقد کرنے کے بارے میں سوچا ہے؟
سنجیو: ہماری ویب سائٹ ریختہ کو پڑھنے اور دیکھنے والوں کی دوسری بڑی تعداد پاکستان میں بسنے والے انٹرنیٹ صارفین کی ہے۔ اور 2015 کےجشن ریختہ کے انعقاد کے بعد ہمیں پاکستان سے بے شمار لوگوں کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں کہ اس طرح کا جشن پاکستان میں بھی منعقد کیا جائے۔ بلکہ بھارت میں موجود پاکستان کے ہائی کمشنر نے بھی ہمیں جشن ریختہ پاکستان میں منعقد کرنے کی دعوت دی ہے۔ ہم نے کبھی بھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ جشن ریختہ پوری دنیا سے اتنا پیار اور داد سمیٹنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ہم ان درخواستوں پر ضرور عمل کریں گے لیکن فی الحال اس بارے میں مزید کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
زمان خان: دونوں ممالک کا ویزہ حاصل کرنے میں بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ کو نہیں لگتا کہ ویزہ کے حصول میں آسانیاں ہونی چاہئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ جشن ریختہ میں شرکت کر سکیں؟
سنجیو: جشن ریختہ 2015 اور 2016 میں دونوں مواقع پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے بڑے ناموں نے کافی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس کے علاوہ ایسے افراد نے بھی شرکت کی جو صرف جشن ریختہ میں شریک ہونے کیلئے بھارت آئے تھے۔ بطور منتظمین ہمیں کہیں بھی ویزہ کے حصول میں مشکلات نظر نہیں آئیں۔ البتہ ہم امید کرتے ہیں کہ ویزہ کے حصول کے عمل کو مستقبل میں مزید آسان اور بہتر بنایا جائے گا۔
زمان خان: کیا آپ پاکستان گئے ہیں؟ اگر گئے ہیں تو وہاں کے ادبی منظر کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
سنجیو: جی ہاں میں ایک دفعہ پاکستان گیا ہوں اور مجھے پاکستان بہت اچھا لگا۔ میرے خیال میں پاکستان میں ادب بیحد ترقی کر رہا ہے اور وہاں مختلف پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے جو لوگوں کی بے پناہ توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی ادبی فیسٹیول، لاہور ادبی فیسٹیول، اور اسلام آباد ادبی فیسٹیول۔ پاکستان کے لکھاری افسانہ نگاری اور شاعری کی بہترین کتابیں تحریر کر رہے ہیں جنہیں پوری دنیا میں پذیرائی مل رہی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ مستقبل میں مزید ترقی کرے گا۔