امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے، امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق پابندیوں میں ان 4 اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ اس طرح کے ہتھیاروں کے پھیلاؤ یا ترسیل میں حصہ لے رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے 18 دسمبر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ”امریکہ جوہری پھیلاؤ اور اس سے وابستہ خریداری کی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا“۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ فیصلہ پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری کے مسلسل پھیلاؤ کے خطرے کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ ان چاروں اداروں کو ایگزیکٹو آرڈر(ای او) 13382 کے تحت پابندیوں کے لئے نامزد کیا گیا ہے جس میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذرائع کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس سے قبل ستمبر میں امریکی محکمہ خارجہ نے ایک چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور متعدد کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی فراہمی میں ملوث ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے میتھیو ملر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ بیجنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف آٹومیشن فارمشین بلڈنگ انڈسٹری نے پاکستان کے ساتھ مل کر شاہین تھری اور ابابیل سسٹم کے لئے راکٹ موٹرز کی ٹیسٹنگ اور ممکنہ طور پر بڑے سسٹمز کے لئے آلات کی خریداری کے لئے کام کیا ہے۔
امریکہ اس سے پہلے بھی پاکستانی ایٹمی پروگرام پر مختلف اوقات میں پابندیاں عائد کر چکا ہے اور ان پابندیوں کی وجوہات مختلف تھیں جن میں ایٹمی پھیلاؤ، عالمی سلامتی کے خدشات اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کے غیر متعین مقصد جیسی توجیہات شامل تھیں۔ نیچے دی گئی فہرست میں ان پابندیوں اور ان کی وجوہات کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
1:۔ 1980 کی دہائی میں امریکی پابندیاں(Pressler Amendment)
1985 میں امریکہ نے پاکستانی ایٹمی پروگرام پر پابندیاں لگائیں، یہ پابندیاں پریسلر ترمیم کے تحت عائد کی گئی تھیں۔ امریکہ نے یہ شرط رکھی کہ اگر پاکستان نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری جاری رکھی تو پاکستان کو امریکی فوجی امداد نہیں ملے گی۔ امریکہ نے 1990 میں پاکستان کی ایٹمی سرگرمیوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا اور بعدازاں پاکستان کی سالانہ امداد روک دی۔
2:۔ 1990 کی دہائی میں لگائی گئی پابندیاں
1990 میں پاکستان کی ایٹمی سرگرمیوں کے باعث امریکہ نے پاکستان پر مزید اقتصادی اور فوجی پابندیاں عائد کی تھیں۔ 1998 میں پاکستان نے اپنی ایٹمی صلاحیت کا کامیابی سے تجربہ کیا، جس کے بعد امریکہ نے پاکستان پر ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدوں کی خلاف ورزی کے الزام میں سخت پابندیاں عائد کیں۔
3:۔ 2000 کی دہائی میں لگائی جانے والی پابندیاں
2000 کی دہائی میں امریکہ نے پاکستان پر ایٹمی عدم پھیلاؤ کے حوالے سے پابندیاں لگائیں۔ پاکستان پر الزام تھا کہ اس نے ایٹمی ٹیکنالوجی کو شمالی کوریا اور ایران جیسے ممالک کو منتقل کی تھی۔ اس کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ پاکستان کے ایٹمی سائنسدان عبدالقدیر خان کی ایٹمی ٹیکنالوجی کی غیر قانونی منتقلی کے سکینڈل نے عالمی سطح پر امریکہ کی تشویش کو بڑھا دیا تھا۔
4:۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور امریکی تعلقات
امریکہ کی تاریخ کو دیکھا جائے تو امریکہ ہمیشہ اپنے مفادات کی خاطر ہی کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرتا اور بگاڑتا ہے۔ 2001 کے آخری مہینے میں افغانستان میں طالبان کے بڑھتے اثر و رسوخ کو کم کرنے اور 9/11 کے بعد ان سے جنگ میں مدد کے لئے امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں نرمی لانے کی کوشش کی اور نیٹو کے باہر اہم ترین اتحادی کے طور پر پاکستان کو تسلیم کیا جس کی وجہ 9/11 حملے تھے۔ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا مگر افسوس کہ اقوام عالم پاکستان کی اس قربانی کی قدر نہ کر سکیں اور پاکستان آج بھی دہشتگردی کی اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے پر دہشتگردوں کے نشانے پر ہے۔ اُس وقت امریکہ نے بعض پابندیاں نرم کیں، لیکن پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کڑی نگرانی بھی رکھی۔
5:۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور عالمی پھیلاؤ
امریکہ نے پھر پاکستان کو 2000 کی دہائی میں ہی چند سال بعد ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدوں کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ضوابط کی خلاف ورزی کا بہانہ بنا کر اس پر پابندیاں عائد کر دیں۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایران اور شمالی کوریا سے اس کے تعلقات 'عالمی ایٹمی تحفظ' کے لئے خطرہ بن گئے تھے۔
یوں تو امریکہ دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے آج تک اپنے کسی بھی مخالف پر ایٹمی حملہ کیا ہے لیکن یہ دنیا بھر میں عالمی امن کا ٹھیکیدار بھی بنا بیٹھا ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ امریکہ دنیا بھر کے امن کو اپنی خوشنودی سے مشروط رکھنا چاہتا ہے۔
زلمے خلیل زاد کا متنازعہ ٹویٹ
دوسری جانب ہمارے حد سے زیادہ سمجھدار دوست ہیں جو کبھی امریکہ میں سینیٹرز اور کانگرس ارکان سے پاکستان پر پابندیوں کا مطالبہ کرتے ہیں تو کبھی یورپی یونین کو GSP+ سہولت ختم کرنے کے لئے ان کے سفارتکاروں سے ملاقاتیں کر کے ترلے منتیں کرتے ہیں۔ اب اس وطن فروش زلمے خلیل زاد کو ہی دیکھ لیجیے جس نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ”پاکستانی حکومت پابندیوں اور سفارتی دباؤ کی مستحق ہے کیونکہ وہ پر امن مظاہرین پر وحشیانہ طاقت کا استعمال کر رہی ہے یہاں تک کہ ان کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور یہ سب بانی پی ٹی آئی کو جیل میں رکھنے کے لئے کیا جا رہا ہے اور قانون کو غلط استعمال کیا جا رہا ہے اب پاکستان میں تبدیلی کا وقت آ گیا ہے“۔ یعنی اب یہ افغانوں کا غدار جو اپنے ملک پر امریکی قبضے کا ناصرف سہولت کار رہا بلکہ اس سے مستفید بھی ہوا، اب پاکستان کو انسانی حقوق پر لیکچر دے رہا ہے۔
ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ جس لیڈر کو وہ بقول ان کے پاکستان بچانے کے لئے پاکستان کا سربراہ دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے نام پر پاکستان کی بربادی میں وہ اپنا حصہ ڈال کر کس کے ہاتھ میں آلہ کار بن رہے ہیں۔ عمران خان دنیا کے واحد سیاستدان ہیں نا پہلے اور نہ ہی آخری جو جیل میں ہیں۔ اور فوج کا کردار کچھ بھی ہو، عمران خان خود بھی اپنی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ ان پر الزامات ثابت شدہ ہیں اور اگر کوئی قانونی سقم فیصلوں میں موجود ہے تو اسے عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ اور ان کے جیل میں ہونے کی اصل وجہ بیشک فوج سے خراب تعلقات ہیں لیکن ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے مخالفین کو چن چن کر جیلوں میں ڈلوایا تھا اور اب بھی وہ ان سے بات کرنے کو تیار نہیں۔
دنیا میں بے شمار سیاستدانوں نے جیلیں کاٹی ہیں مگر کیا وہ اپنے ملک کے خلاف لابنگ شروع کر دیتے ہیں؟ جب تک عمران خان اپنی سوچ میں سے پاکستان کے سینئر سیاستدانوں کے لئے نرمی نہیں لائیں گے وہ پاکستان کے لئے کچھ کر سکتے ہیں نہ پاکستانی عوام کے لئے۔ انہیں بھی زلمے خلیل زاد جیسے لوگوں کو پاکستان کا مذاق اڑانے کا موقع فراہم کرنے سے گریز کرنا چاہیے
(تحریر محمد ذیشان اشرف )