تحریک لبیک جیسی شدت پسند تحاریک کی کامیابی مرکزی اعتدال پسندوں کی ناکامی ہے

تحریک لبیک جیسی شدت پسند تحاریک کی کامیابی مرکزی اعتدال پسندوں کی ناکامی ہے
دائیں بازو کی تحاریک کا مقبولیت حاصل کرنا پاکستان میں مرکزی اعتدال پسند سیاستدانوں اور جماعتوں کی سیاست کا زوال ہے۔ یہ ایک عالمگیر رجحان ہے جس کی تصدیق 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ کہ جیت سے ہو گئی تھی۔ بتدریج مرکزی اعتدال پسند ہمارے خطے میں بھی کمزور ہو رہے ہیں اور پاکستان میں خادم حسین رضوی جیسے افراد اپنی جڑیں مضبوط کرتے چلے جا رہے ہیں۔

تحریک لبیک کے پاس چند گھنٹوں کے اندر احتجاج کے ذریعے نظام زندگی مفلوج کرنے کی صلاحیت موجود ہے جس کا مطلب ہے کہ اس مذہبی سیاسی جماعت نے گلی محلوں تک پر اپنی گرفت قائم کر لی ہے۔ یہ اس امر کہ بھی نشاندہی ہے کہ سٹیٹس کو جو کہ مرکزی اعتدال پسند جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز پر مشتمل ہے (جنہوں نے مشترکہ طور پر دو دہائیوں تک ملک کے معاملات چلائے ہیں) کا شیرازہ اب بکھر رہا ہے اور یہ جماعتیں اپنے ووٹرز کے جائز مسائل سمجھنے اور انہیں حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

جو حقیقت خطرے کی گھنٹی بجانے کا کارن ہے وہ یہ ہے کہ متعدد بار تحریک لبیک نے ملک کے نسبتاً ترقی یافتہ اور باشعور شہروں لاہور، فیصل آباد، کراچی اور اسلام آباد میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ مفروضہ دم توڑ چکا ہے کہ شدت پسندی کا تعلق محض غربت اور ناخواندگی سے ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے عوام، بالخصوص مڈل کلاس طبقہ اب پرانے سیاسی رہنماؤں اور ان کے گلے سڑے سیاسی بیانیوں سے بیزار ہو چکا ہے۔ مزید برآں شدت پسند تحریکیں بالخصوص مذہبی سیاسی تحریکیں، عوام کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو چکی ہیں کہ ریاستی ادارے جو زیادہ تر روایتی سیاستدانوں کے تابع ہیں وہ کسی بھی کام کے نہیں کیونکہ یہ ادارے محض سیاسی اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور سماج میں بسنے والے کمزور طبقات کو استحصال کا نشانہ بناتے ہیں۔



عوام کو اس بیانئے پر بھی قائل کیا جا چکا ہے کہ عوام کے عقائد اور ان کی سماجی اقدار بیرونی دنیا کی اسٹیبلشمنٹ اور ان کے پاکستان میں موجود ہرکاروں کی سازشوں کے باعث شدید خطرے میں ہیں۔ اسی وجہ سے یہ جماعتیں عوام کو ممکنہ شناخت کے چھن جانے کے خوف (خواہ مذہبی، نسلی یا سیاسی) میں مبتلا کر کے اپنی مقبولیت بڑھا چکی ہیں۔ ادھر مغرب اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کر کے اس جلتی آگ پر مزید تیل چھڑکنے کا کام انجام دیتا ہے جو کہ مذہبی شدت پسندوں کیلئے آکسیجن کا کام دیتی ہے۔ اس کی واضح مثال مشرق وسطیٰ ہے جہاں داعش نے مغرب کے خلاف مذہبی بیانیہ تیار کر کے عوامی تائید حاصل کی۔

کبھی نہ ختم ہونے والا معاشی بحران، ایک دہائی پر مبنی خون ریزی اور ناقص طرز حکمرانی کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت کے عناصر نے بھی عوام کو غصے میں مبتلا کرنے اور شدت پسندوں کو اس صورتحال کا فائدہ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ڈیپ سٹیٹ کی پردے کے پیچھے چھپ کر ریاست کے معاملات خود چلانے کی خواہشات نے بھی سنی شدت پسندوں کے دوبارہ سیاسی اور سماجی منظرنامے میں ابھرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔



ابتدائی طور پر تحریک لبیک کو مخالفین کے ووٹ توڑنے کی غرض سے سیاسی اور انتخابی میدان میں اتارا گیا لیکن تحریک لبیک نے عام انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے والی پانچویں بڑی جماعت بن کر خود اس کو تیار کرنے والی قوتوں کو بھی حیران کر دیا۔ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ دیو بندی مکتبہ فکر کے شدت پسند گروہوں کو سٹریٹیجک اثاثوں کے طور پر استعمال کرنے کی پالیسی بھی تبدیل ہو چکی ہے۔ خادم رضوی اس فوجی ڈاکٹرائن کے پنپنے کیلئے موزوں ترین ہے جو ضیاالحق کے دور سے شروع ہوئی۔

خادم رضوی اور عمران خان کے عروج اور مقبولیت سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہم قرون وسطیٰ کے سیاسی نظام جو کہ ڈکٹیٹرشپ اور مقبولیت کے گرد گھومتا ہے میں واپس جا چکے ہیں اور عوام فعال ریاستی اداروں کے بجائے مضبوط شخصیات کو پسند کرتی ہے۔ جدید دنیا میں اس کی مثال ترکی میں طیب اردگان اور روس میں صدر پیوٹن کی دو دہائیوں سے اقتدار پر قائم گرفت بھی ہے۔ جبکہ پڑوسی ملک بھارت میں نریندر مودی نے اکیلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار تک پہنچایا۔ اعتدال پسند مرکزی جماعتوں کی ناکامی اور ڈیپ سٹیٹ کی پس پشت مدد کے علاوہ تحریک لبیک کی بطور سیاسی قوت بن کر ابھرنے میں مساجد کے نیٹ ورک نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔



رضوی کی زیرِ قیادت شدت پسند تحریک منبروں کے ذریعے سازشوں سے بچاؤ اور مسلمانوں کے دوبارہ طاقت میں آنے کا پیغام جس قدر شدت کے ساتھ اور وسیع پیمانے پر دے رہی ہے وہ 70 اور 80 کے افغان جہاد کے پیغام کے بعد اپنی ہئیت کے اعتبار سے سب سے منظم اور طاقتور پیغام ہے۔ تحریک لبیک کا نظریاتی سلوگن "ووٹ دو اور جنت لو" کا نعرہ ہے اور اس کے سپورٹرز اس نظریاتی نعرے سے اس قدر متاثر ہیں کہ وہ خادم رضوی کو اپنا واحد نجات دہندہ سمجھتے ہیں جو ان کے گناہوں کو دھونےاور بخشوانے کا کام کر سکتا ہے۔ جو مقبولیت اور اندھی تقلید خادم رضوی کو حاصل ہے ویسی اندھی تقلید الطاف حسین کو اس کے بام عروج پر بھی نہ حاصل ہونے پائی تھی۔

تحریک انصاف کا مقدمہ ذرا مختلف نوعیت کا ہے۔ تحریک انصاف اقتدار میں آنے کے بعد بتدریج اپنا بیانیہ بنیاد پرستی سے اعتدال پسندی کی جانب تبدیل کرتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے خادم رضوی کے احتجاج کے دوران قوم سے خطاب کے دوران امن کی ضرورت پر زور دیا تھا اور کسی بھی قیمت پر ریاست کی رٹ کو برقرار رکھنے کی بات کہی تھی جو تحریک انصاف کے بدلتے ہوئے بیانئے کی جانب واضح اشارہ ہے۔ اگر تحریک لبیک اقتدار میں آئی تو وہ بھی تحریک انصاف کی مانند یہی حکمت عملی اپنائے گی۔



آپ اس حقیقت کو پسند کریں یا نہ کریں لیکن حققیقت یہی ہے کہ پاکستان میں شدت پسند گروہوں کا عروج ایک ایسی لہر کا آغاز ہے جو فرسودہ سیاسی ڈھانچے کی ہئیت کو یکسر تبدیل کر دے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اعتدال پسند سیاسی جماعتیں اسے روکنے یا تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ان جماعتوں کے پاس سوائے "روٹی کپڑا اور مکان" اور "ووٹ کو عزت دو" کے نعروں کے مستقبل میں دینے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ عوام اب سیاسی آئیڈیلزم میں دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ اسے معاشی بہتری درکار ہے۔ اس کے علاوہ اعتدال پسند مرکزی جماعتیں اس وقت نیب کے شکنجے سے بچنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے میں مصروف ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ کسی بھی صورت اس شکنجے سے نکل کر سیاسی منظرنامے پر اپنا وجود برقرار رکھتے ہوئے مستقبل کی سیاست سے نکال باہر نہ کر دی جائیں۔

سیاسی ڈھانچے کی مرمت کا کام ناخوشگوار ہے لیکن یہ شروع ہو چکا ہے۔