Get Alerts

عمران خان حکومت توشہ خانہ کے حقائق سامنے لانے سے گریز کیوں کر رہی ہے؟

عمران خان حکومت توشہ خانہ کے حقائق سامنے لانے سے گریز کیوں کر رہی ہے؟
رانا ابرار خالد وہ صحافی ہیں جنہوں نے عمران خان حکومت کے دور میں توشہ خانہ کیس اٹھایا اور آج یہ پاکستان کا نہ صرف ایک اہم ترین کیس ہے بلکہ اگر مخالفین کے الزامات میں محض دس فیصد بھی سچائی ہوئی تو یہ کیس عمران خان کے لئے مستقبل میں ایک مصیبت ضرور بنے گا۔

رانا ابرار خالد کے مطابق معاملہ قریب ایک سال قبل 23 نومبر 2020 کو شروع ہوا جب ان کے پاس باوثوق ذرائع سے یہ اطلاعات آئیں کہ توشہ خانہ کے معاملے میں کچھ معاملات ہیں اور کچھ ثبوت بھی آئے جو کہ یہ تاحال سامنے نہیں لائے ہیں۔

سلیم صافی سے جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں چند روز قبل بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب ان کے پاس یہ معلومات آئیں تو انہوں نے Right to Information Act کے تحت ایک درخواست سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن کو بھیجی جس میں پانچ واضح سوالات کیے گئے:

1) 18 اگست 2018 سے 31 اکتوبر 2020 تک وزیر اعظم عمران خان کو غیر ملکی سربراہان سے کتنے تحفے ملے ہیں؟


2) ان تحائف کی تفصیل کیا ہے؟


3) ان تحائف میں سے قانون کے مطابق وزیر اعظم نے اپنے پاس کتنے رکھے ہیں؟


4) کتنے تحائف توشہ خانہ میں جمع کروائے گئے ہیں؟


5) جو تحائف وزیر اعظم نے اپنے پاس رکھے ہیں، ان کی قیمت انہوں نے کس اکاؤنٹ سے ٹرانسفر ہوئی ہے؟


قانون کے مطابق حکومت کے تمام محکمے پابند ہیں کہ دس دن میں مطلوبہ معلومات فراہم کریں۔ اگر اس عرصے میں معلومات فراہم نہیں ہو پاتیں تو دس دن مزید لیے جا سکتے ہیں لیکن اس صورت میں درخواست گزار کو لکھ کر دیا جائے گا کہ دس دن مزید درکار ہیں۔

اس درخواست کو قریب ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن تاحال یہ معلومات سامنے نہیں آ سکیں۔ حکومت اس سلسلے میں ٹال مٹول سے کام لیتی رہی ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے یہ توجیہ پیش کی کہ غیر ملکی سربراہان اس بات سے خوش نہیں ہوں گے کہ ان کے تحائف کی فہرست کسی کو دی جا سکے۔ یوں انہوں نے اسے پاکستان کے ایک بین الاقوامی تعلقات کا معاملہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جب کہ اگر سوالات پر غور کیا جائے تو واضح ہے کہ یہ سوال حکومت سے کیا ہی نہیں گیا ہے۔ ملک ابرار کے مطابق حکومت سے صرف تحائف کی تفصیلات مانگی گئی ہیں، یہ نہیں پوچھا گیا کہ کون سا تحفہ کس سربراہِ مملکت نے دیا۔

13 اکتوبر 2021 کو ہوئی پیشی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس حوالے سے حکومتی نمائندے سے بار بار استفسار کیا تھا کہ حکومت یہ معلومات فراہم نہ کر کے شرمندگی کیوں مول لے رہی ہے؟ کیا قباحت ہے حقائق سامنے لانے میں؟ تاہم، یہ حقائق تاحال سامنے نہیں لائے گئے۔