تحریک انصاف کے سربراہ نے کل واضح طور پر بتا دیا کہ ان کے پاس اختیار نہیں تھا اور ان کے اس بیان کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر ایک بھونچال آ گیا جس میں ان کے وہ بیانات دکھائے جانے لگے جن میں پریس کانفرنس کے دوران اسٹیبلشمنٹ کی تعریف کرتے ہوئے وہ کہہ رہے ہیں کہ باجوہ اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے منشور کے ساتھ ہے اور ضیاء الحق اور جنرل ایوب خان کی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید بھی کی حالانکہ ضیاء الحق ان کے محسنوں میں سے ہیں۔ ایک منقول اطلاع کے مطابق عمران خان کرکٹ کو خیرباد کہہ چکے تھے اور جنرل ضیاء الحق عمران خان کو مجبور کر کے دوبارہ کرکٹ میں لائے جس کی بنیاد جنرل ضیاء الحق کی ایک سادہ ذہن (سپیشل) بیٹی تھی جو عمران خان کو بحیثیت کھلاڑی پسند کرتی تھی۔ یہ روش آج بھی قائم ہے اور ان چاہنے والوں میں جنرل صاحب کا ایک بیٹا بھی شامل ہے۔
آج جب وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس اختیار ہی نہیں تھا تو دو ہی صورتیں بنتی ہیں۔ ایک تو یہ صورت ہے کہ ہم سمجھیں کہ اس وقت عمران خان کو سچ بولنے کا بھی اختیار نہیں تھا یا پھر وہ اقتدار کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر برداشت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ اگر ان کے پاس اختیارات نہیں تھے تو پھر ایک عوامی نمائندے اور قائد کی حیثیت سے ان کو فوری استعفیٰ دے دینا چاہئیے تھا۔ اس کی بنیاد ان کے اپنے بیانات ہیں جن میں وہ کہا کرتے تھے کہ ان کو کوئی ڈکٹیٹ نہیں کر سکے گا اور اگر کرنے کی کوشش کی گئی یا ان کے خلاف چند سو لوگ بھی سڑکوں پر نکل آئے تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ اگر ان کو اس طرح کی کسی پابندی کا سامنا نہیں تھا تو پھر ان کی باتوں میں کہیں جھوٹ کا شبہ ہوتا ہے جس کا بہرحال ہم اس وقت تک گمان نہیں کر سکتے جب تک وہ اپنے منہ سے اعتراف نہ کرلیں کیونکہ ان کے چاہنے والوں کے بقول وہ بڑے دبنگ اور سیدھی بات کر دینے والے رہنما ہیں اور لگی لپٹی باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ ویسے بھی کوئی شریف آدمی ان کے پیروکاروں کے بد ذوق رویے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
اگر ان کے اس بے اختیار ہونے والے بیانیے کو تاریخ کے سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو اس کے ذمہ دار خود سیاستدان بھی تو ہیں جو اس آسیب زدہ جمہوریت کا خود حصہ بنتے ہیں۔ جن کا حکومت میں آنے سے پہلے بیانیہ کچھ اور ہوتا ہے اور حکومت میں کچھ اور اور بعد میں حکومت ختم ہونے کے بعد کچھ اور ہو جاتا ہے۔ اداروں کی تکریم ان کے اندر کام کرنے والوں سے ہی مشروط ہوتی ہے۔ ادارے لوگوں سے بنتے ہیں اور جن کی تکریم نہیں بن سکی وہ ان میں کام کرنے والوں کی نااہلی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ تحریک انصاف کے دو منشور ہوں۔ ایک وہ جو وہ تقریروں میں اکثر بیان کرتے ہیں جس نے عوام کو تحریک انصاف کا گرویدہ بنایا ہوا ہے اور دوسرا وہ منشور جو سادہ عوام سے پوشیدہ ہے کیونکہ سادہ لوگوں میں اس منشور کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہو گی جس کے تحت انہوں نے اپنی 26 سالہ سیاست کی اور خاص کر پچھلے 10 سال کی سیاست جس میں بالآخر وہ حصول حکومت میں کامیاب بھی ہوئے اور پھر اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوامی غیض و غضب کا بھی سامنا کرنا پڑا اور بالآخر ان کے کسی ہمدرد نے ان کی اس سے جان چھڑوا دی جس کا تحریک انصاف کو ممنون ہونا چاہیے کیونکہ سارے عوامی غیض و غضب کا بوجھ ان کے کندھوں سے ہٹ کر پی ڈی ایم کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور وہ اپنی میڈیا وار کے ذریعے سے ایک دفعہ پھر عوام میں مقبول ہو گئے ہیں۔
یہ دونوں منشوروں کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہوئے میڈیا وار کی مہربانیوں کے ذریعے سے ہی مقبولیت کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور یہ اُسی سوشل میڈیا وار کا تسلسل ہے جس کے نتیجے میں عرب سپرنگ لایا گیا جس میں عراق اور لیبیا کا بھی حشر نشر ہوا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے جس سے ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی دھوکہ کھا گئی اور ہائبرڈ حکومت کے تجربے سے گزری۔ ان کو لگتا تھا کہ معیشت سنبھل گئی ہے اور عمراں خان کی مقبولیت اب اس کو سہارا دیئے رکھے گی مگر اس مقبولیت کے پیچھے مقاصد کچھ اور تھے جنہوں نے آج پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کر دیا ہے۔
اب عمران خان کے بیانیے سے، جس میں کبھی کبھی چیدہ چیدہ سچ بھی ہوتا ہے، حقیقی منشور کی واضح شکل سامنے آ رہی ہے مگر سوشل میڈیا کی مسحور کن کمپین نے عوام کو ورغلایا ہوا ہے اور وہ اس جادوئی بیانیوں اور سمارٹ نس کے رنگین جال میں پھنسے ہوئے ہیں جس سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں شوبز کا امتزاج خدمات کے جذبے سے زیادہ ہو گیا ہے اور لوگ کارکردگی کی بجائے ظاہری نمود و نمائش کو اہمیت دینے لگے ہیں۔ وگرنہ عمران خان کے مطالبات جو اسٹیبلشمنٹ اور اداروں سے ہیں ان میں جمہوریت اور آئین کی پاسداری کا منظرنامہ کم ہی ہے بلکہ وہ حکومت کو اپنا وراثتی حق سمجھنے لگے ہیں اور جس کا حصول ہر صورت چاہتے ہیں اور ان کی سابقہ کارکردگی، اسٹیبلشمنٹ کی عنایات پر صلہ اور موجودہ بیانیے نے ان پر سے اداروں کے اعتماد کو بری طرح سے متاثر کیا ہے مگر سوشل میڈیا کی مہربانیاں چونکہ ابھی بھی قائم ہیں جن کی وجہ سے شاید کچھ مجبوریاں آڑے آئی ہوئی ہیں جن کی بدولت تحریک انصاف کے سیاسی جلسے جلوسوں میں اداروں پر الزامات کے باوجود ان کو ڈھیل ملی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کی سیاست سے ابھرتے تاثر میں دو چیزیں تشویش ناک ہیں۔ ایک ان کی کارکردگی اور دوسری ان کے ڈانواں ڈول بیانیے جن کی بنیاد پر ان کے بارے میں کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کا منشور عمران خان کی سوچ ہے اور سوچ ان کے عمل سے عیاں ہے۔ جس طرح سے ان کو نوازا گیا اور پونے چار سال ان کو ہر طرح سے مدد فراہم کی جاتی رہی، اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اپنی عزت بچانے کے لیے تحریک انصاف کی نااہلیوں کو چھپانے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے مگر جب یہ سمجھا گیا کہ اب معاشی بد حالی کی آخری حد آنے والی ہے تو پھر نیوٹرل ہونے کا بیانہ سامنے لایا گیا جس پر کہیں کہیں سے دبی دبی آوازیں بھی آئیں اور یہ بیانیہ کئی ماہ تک تو بے یقینی کا شکار ہی رہا اور ابھی بھی پورا بھروسہ حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ اس پر کچھ ناعاقبت اندیش ذہنوں نے سوال بھی اٹھائے کہ یہ کیا مذاق ہے کہ سب کچھ کر کروا لینے کے بعد نہ کوئی سزا اور نہ کوئی جزا اور نہ کوئی مستقبل کے بارے میں یقین دہانی۔ اس بیانیے کی جس طرح سے تحریک انصاف کی طرف سے درگت بنائی گئی اس کی تو پاکستان کی تاریخ بھی مثال دینے سے قاصر ہے اور مکافات عمل ابھی بھی محو سفر ہے اور ہر کوئی اس کو اپنے اپنے مزاج کے مطابق سامان فرحت بنائے ہوئے ہے۔ کوئی اس کو علاج فطرت تو کوئی اس کو تمنائے دل سمجھ کر محظوظ ہو رہا ہے۔
بات سوچ کی ہے، کوئی ناجائز ذرائع کو بدعنوانی سمجھتا ہے تو کوئی اس کو صلاحیتوں کا نتیجہ۔ کوئی اس طرح کے منشوروں کو قاتل جمہوریت سمجھتا ہے تو کوئی سیاسی شعور کی اعلیٰ مثال۔ کوئی سمجھ کر بھی ناسمجھ ہی ٹھہرتا ہے تو کوئی کچھ نہ جانتے ہوئے بھی اپنے آپ کو عقل مند سمجھتا ہے اور اس بیماری کا علاج شاید ابھی تک کسی طبیب کو معلوم نہیں ہوا وگرنہ یہ جاہل اور عقل مند کی تعریف انسانی ذہنوں کو سمجھ آجاتی اور انسان فطرت کے اصولوں کو سمجھتے ہوئے بے مقصد اختلافات سے نکل کر آج امن کی زندگی بسر کر رہا ہوتا۔