نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج 

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ 15 ستمبر کے فیصلے کے ذریعے سپریم کورٹ نے ’قانون ساز‘ اور ’پالیسی میکر‘ کی جگہ لی جو اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ متضاد تھا اور قانون کی غلط تشریح پر مبنی تھا۔

نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج 

سپریم کورٹ میں قومی احتساب آرڈیننس ( این اے او) میں ترامیم کو غیر قانونی قرار دینے والے 15 ستمبر کے عدالتی فیصلے کو چیلنج کر دیا گیا ہے۔

گزشتہ روز اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی ایک نجی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک کے ذریعے عبدالجبار نامی ایک شہری کی جانب نظرثانی کی درخواست دائر کی گئی۔

درخواست گزار نیب ترمیمی فیصلے سے براہ راست متاثر ہوئے کیونکہ ان کے خلاف نیب ریفرنس زیر التوا ہے۔

جمعرات کو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ نگران حکومت 15 ستمبر کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرے گی جوکہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے جاری کردہ آخری حکم تھا۔

چونکہ مختصر حکم کے تحت سپریم کورٹ ( پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کو برقرار رکھا گیا ہے. اس لیے اس قانون کے نافذ ہونے کے دن کے بعد آرٹیکل 184(3) کے تحت جاری کیے گئے سپریم کورٹ کے تمام فیصلے، نیب آرڈیننس میں ترامیم کے فیصلے سمیت اپیل کے قابل ہیں۔

نظرثانی کی درخواست درخواست میں بیان کیا گیا کہ سپریم کورٹ نے ہمیں سنے بغیر نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ دیا۔ نیب ترامیم کے بعد احتساب عدالت نے میرے خلاف ریفرنس اینٹی کرپشن کو بھجوا دیا۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت عدالت عظمیٰ کے دائرہ اختیار کا استعمال ذمہ داری سے کیا جانا چاہیے لیکن نیب ترمیمی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اس اصل دائرہ اختیار کو استعمال نہیں کیا گیا۔

درخواست میں روشنی ڈالی گئی کہ 15 ستمبر کے فیصلے میں پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی اصولوں اور قانون سازی کو ختم کرنے کے لیے قائم کردہ اصولوں پر غور کیے بغیر قانون سازی کے ایک حصے ( نیب آرڈیننس میں ترامیم) کو آئین کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ 15 ستمبر کے فیصلے نے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات کو کم کر دیا ہے حالانکہ یہ پارلیمنٹ ہی ہے جس نے قومی احتساب آرڈیننس 1999 کو نافذ کیا تھا اور یہ پارلیمنٹ ہی فیصلہ کرتی ہے کہ اس میں کب اور کس طرح ترمیم یا ردوبدل کرنا ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ یہ فیصلہ اس بات کے ادراک میں بھی ناکام رہا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے قومی احتساب آرڈیننس میں کی گئی ترامیم نے کسی جرم کو قانون کی گرفت سے آزاد نہیں کیا بلکہ اسے متعلقہ حکام تک پہنچانے کی راہ ہموار کی ہے۔

درخواست میں کہا گیا 15 ستمبر کے فیصلے کے ذریعے سپریم کورٹ نے ’قانون ساز‘ اور ’پالیسی میکر‘ کی جگہ لی جو اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

درخواست میں استدلال کیا گیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ متضاد تھا اور قانون کی غلط تشریح پر مبنی تھا۔

واضح رہے کہ نیب کے قانون میں 27 ترامیم سے متعلق بل گذشتہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مئی 2022 میں منظور کیا گیا تھا تاہم صدر عارف علوی نے اس بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت نے جون 2022 قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس کی منظوری دی تھی۔

اس قانون سازی کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا اور یہ بھی کہنا گیا تھا کہ ان ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ سمجھا جائے گا۔

 نیب ترامیم سے متعلق بل منظور ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے سپریم کورٹ میں اس بل کے خلاف ایک درخواست دائر کی۔ اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے۔ کیس پر سماعت شروع کر دی۔

تاہم سپریم کورٹ کی کارروائی چلتی رہی اور بالآخر 53 سماعتوں کے بعد 15 ستمبر کو سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلہ سنا دیا۔ 2 ایک کی اکثریت سے جاری ہونے والے فیصلے کے مطابق نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے عوامی عہدہ رکھنے والے افراد کے نیب میں موجود تمام مقدمات کو بھی دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ کے 2 ججز کے اکثریتی فیصلے کے مقابلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم پر فیصلہ سناتے ہوئے 10 میں سے 9 شقوں کو اڑا دیا۔ فیصلے کے مطابق نیب ترامیم میں ایک کے سوا تمام شقیں کالعدم قرار دی گئیں۔سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شق کو برقرار رکھا گیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں احتساب عدالتوں کی جانب سے ختم کیے جانے اور منتقل کیے جانے والے تمام مقدمات بحال ہوگئے۔ نیب ترامیم کالعدم ہونے سے شہباز شریف، آصف زرداری، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی کے مقدمات بھی بحال ہوگئے۔

نیب کے پرانے قانون کے مطابق نیب مقدمے میں گرفتار ملزم کی ضمانت ہائیکورٹ کا ڈویژن بینچ دے سکتا تھا جبکہ ترمیمی قانون میں یہ اختیار احتساب عدالت کو دے دیا گیا تھا۔