'چترال کی سیاحت تو تباہ ہو گئی، اب یہاں کون آئے گا، پورے پختونخوا میں چترال ہی واحد ایسا علاقہ ہے جو سب سے زیادہ پرامن بھی رہا اور یہاں سب سے زیادہ غیر ملکی سیاح بھی آتے رہے ہیں لیکن دہشت گرد حملوں کے بعد اب لگتا ہے کہ دوبارہ سے یہاں سیاحوں کا اعتماد بحال ہونے میں وقت لگے گا'۔ یہ الفاظ ہیں چترال کے سینیئر صحافی گل حماد فاروقی کے جو گزشتہ ایک ہفتہ سے پاک افغان سرحدی مقامات پر سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے مابین ہونے والی جھڑپوں کو رپورٹ کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چترال کی اکثریتی آبادی کا انحصار مقامی سیاحت پر رہا ہے اور اگر سیاح نہیں آئیں گے تو یقینی طور پر مقامی لوگوں بالخصوص ان افراد کا جن کا کاروبار براہ راست طور پر سیاحت سے جڑا ہوا ہے، ان کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ 'چترال شاید پختونخوا کا واحد ایسا پرامن ضلع ہے جہاں غیر ملکی سیاح بڑے شوق سے آتے ہیں۔ لیکن دہشت گردی کے ان واقعات کے بعد اب مجھے نہیں لگتا کہ غیر ملکی سیاح اتنی جلدی پھر سے چترال کا رخ کریں گے'۔
گل حماد فاروقی کے مطابق چترال میں بیش تر ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز وادی کیلاش رہی ہے کیونکہ وہاں کے لوگوں کی منفرد ثقافت اور بود و باش سیاحوں کی دلچپسی کا مرکز ہوتی ہے اور جس سے کیلاش کے لوگوں کا روزگار بھی لگا ہوا تھا لیکن اب تو لگتا ہے کہ وادی کیلاش میں بھی معاشی مسائل جنم لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جس صبح چترال پر سرحد پار سے دہشت گردوں نے حملہ کیا اسی وقت بمبورت میں ایک امریکی سیاح موجود تھا جنہیں مقامی انتظامیہ نے فوری طور پر اپنی حفاظت میں لے کر چترال شہر منتقل کر دیا۔ بعد میں اس سیاح نے ٹوئٹر پر اپنی ساری کہانی شیئر کر دی تھی۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے سب سے پرامن سمجھے جانے والے پہاڑی ضلع چترال میں 6 ستمبر یعنی یوم دفاع کے روز صبح سویرے سرحد پار افغانستان سے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سینکڑوں جنگجوؤں نے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا جس میں کم سے کم 5 سکیورٹی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ تاہم جوابی کارروائی میں پاکستان فوج کے مطابق 16 دہشت گرد مارے گئے۔ یہ جھڑپیں قریباً چھ دن تک وقفے وقفے سے جاری رہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق کوئی پانچ سو کے لگ بھگ دہشت گردوں نے افغان صوبہ نورستان سے لوئر چترال میں دراندازی کی اور جنجیرت اور اورسون کے پہاڑوں میں واقع چترال سکاؤٹس کی چیک پوسٹوں پر دھاوا بول دیا۔ ذرائع کے مطابق ابتدائی حملے میں تین اہلکار ہلاک ہوئے تاہم بعد میں دو زخمیوں نے ہسپتال میں دم توڑ دیا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ 6 ستمبر کو صبح سویرے اچانک بھاری ہتھیاروں کی فائرنگ شروع ہوئی۔ تاہم یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ فائرنگ کون اور کس علاقے میں ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب سورج نکل آیا تب معلوم ہوا کہ طالبان نے وادی کیلاش کے قریب پہاڑوں میں واقع چترال سکاؤٹس کی چیک پوسٹوں پر حملہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ گھنٹوں کے بعد سکیورٹی فورسز کے خصوصی دستے بھی متاثرہ مقامات پر پہنچ گئے تھے جنہیں گن شپ ہیلی کاپٹر اور ڈرون طیاروں کی مدد بھی حاصل رہی۔
مقامی لوگوں کے مطابق پانچ دن تک علاقے میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی کارروائی جاری رہی جبکہ اس دوران دہشت گرد بھی اپنے ٹھکانوں سے فائرنگ کرتے رہے۔
گل حماد فاروقی کے مطابق وادی کیلاش کی طرف آنے جانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے تھے تاہم حالات معمول پر آنے کے بعد اب راستوں کو دوبارہ سے کھول دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ دو دنوں سے فائرنگ کی اطلاع نہیں ملی ہے تاہم متاثرہ علاقے میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی پروازوں کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے علاقے میں بدستور سرچ اور سٹرائیک آپریشن بھی کیا جا رہا ہے تاہم علاقے کو مکمل طور پر دہشت گردوں سے صاف کرانے کا اعلان نہیں ہوا ہے۔
ضلع چترال سالہا سال سے ایک پرامن ضلع رہا ہے۔ یہاں جرائم کی شرح پختونخوا کے دیگر اضلاع کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ چترال کے باشندے بھی عام طور پر نرم طبعیت کے مالک سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ چترال کے سرحدی مقامات پر قبضہ کرنے کی کوشش سے ٹی ٹی پی کیا مقصد حاصل کرنا چاہتی تھی؟ کیا یہ اس کی نئی حکمت عملی کا حصہ ہے اور کیا مستقبل میں ایسے واقعات قبائلی اضلاع میں بھی رونما ہو سکتے ہیں؟
بعض ماہرین اس حملے کا ہدف بظاہر پڑوسی ملک چین کو قرار دیتے ہیں جس کا مقصد خطے میں ان کے لیے مشکلات پیدا کرنا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چترال کی سرحد نہ صرف افغانستان سے ملتی ہے بلکہ واخان راہداری کے ذریعے سے یہ علاقہ چین اور وسطی ایشیائی ریاست کو بھی ٹچ کرتا ہے۔
پشاور یونیورسٹی میں شعبہ صحافت اور ابلاغ عامہ کے اسسٹنٹ پروفیسر اور مصنف ڈاکٹر سید عرفان اشرف کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں چترال کی افغان صوبہ نورستان سے ملنے والے پہاڑی چوٹیاں بڑی پرپیچ اور اونچی ہیں جبکہ ان علاقوں میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کی زیادہ موجودگی بھی نہیں پائی جاتی تھی اور شاید یہی وجہ ہے کہ طالبان نے ان علاقوں کو نشانہ بنایا تا کہ ان کے کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس کے مقابلے میں شدت پسند وزیرستان یا کسی اور علاقے میں اس طرح قبضہ کرنے کی کوشش کرتے تو شاید ان کو اس طرح کامیابی نہ ملتی کیونکہ قبائلی اضلاع میں سکیورٹی فورسز کی باقاعدہ موجودگی پائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر عرفان کے مطابق 'چترال گلگت بلتستان سے بھی ملا ہوا ہے اور آج کل وہاں کے حالات بھی بڑے کشیدہ ہیں لہٰذا طالبان کی کوشش ہو گی کہ وہاں بھی نیٹ ورکنگ کی جائے اور اگر اس طرف طالبان پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر سی پیک منصوبہ خطرے میں پڑ سکتا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی اس کارروائی کو عام تناظر میں نہیں دیکھنا چاہئیے کیونکہ چترال اور آس پاس کے علاقوں کی بڑی سٹرٹیجک اہمیت ہے اور طالبان نے بھی بظاہر اس اہمیت کو مدنظر رکھ کر حملہ کیا ہے۔
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ چترال حملے کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں لیکن اس میں سرفہرست چین اور سی پیک کو نشانہ بنانے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پشاور کے سینیئر صحافی اور کالم نگار محمود جان بابر نے دعویٰ کیا کہ چترال حملے کے حوالے سے اب تک جو مصدقہ معلومات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق اس حملے میں ٹی ٹی پی کے ساتھ شدت پسندوں کے وہ گروپ بھی ملوث ہیں جو چین کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چترال حملے سے بظاہر ایک شعوری کوشش کی گئی کہ کسی طریقے سے اس علاقے میں ایک محاذ کھولا جائے کیونکہ اس علاقے کی اہمیت کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
محمود خان بابر کے بقول 'چترال کے قریب شاہراہ قراقرم گزرتی ہے جو چین سے جا کر ملتی ہے۔ اس کے علاوہ واخان کی پٹی بھی قریب ہے جو چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے راہداری ہے اور ابھی اس کے کھولنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں تاکہ افغانستان اور چین کے درمیان تجارت بڑھائی جائے۔ ان حالات میں اگر اس علاقے میں شدت پسندی بڑھتی ہے تو اس کا براہ راست اثر چین پر پڑے گا بلکہ بظاہر یہ ایک شعوری کوشش ہو سکتی ہے کہ کسی طریقے سے چین کے لیے مشکلات پیدا کی جائیں'۔
اس سوال پر کہ ٹی ٹی پی یہ بات کئی مرتبہ واضح کر چکی ہے کہ ان کی جنگ صرف پاکستان کے اندر پاکستان کے خلاف ہے، کوئی اور ملک ان کا ہدف نہیں؟ محمود جان بابر نے کہا کہ ٹی ٹی پی یہ بات تو ضرور کرتی ہے لیکن یہ سارا کھیل ان کے ہاتھ میں ہے بھی نہیں، ایسے بہت سارے شدت پسند گروپس میدان میں موجود ہیں جو ان کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ ایسے گروپوں کو جہاں سے زیادہ پیسے ملیں گے وہ ان کے لیے کام کریں گے۔
جس دن چترال میں شدت پسندوں کی طرف سے حملہ کیا گیا اسی روز پاک افغان سرحد طورخم پر بھی دونوں ممالک کے مابین فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں دو افغان سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔
پاکستان نے گذشتہ ایک ہفتہ سے طورخم سرحد ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کی ہوئی ہے جس کی وجہ سے افغان شہریوں کو آنے جانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے جبکہ افغانستان سے فروٹ کی سپلائی بھی معطل ہے۔
اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ طورخم سرحد کی بندش چترال کے واقعہ سے جڑی ہوئی ہے اور جب تک چترال میں حالات مکمل طور پر کنٹرول نہیں ہوتے اس وقت تک سرحد کے کھولنے کے امکانات کم ہی نظر آ رہے ہیں۔