بھارت میں کرونا وائرس کا مسلم مخالف رنگ: 'اپنی مدد لے جاؤ تم تبلیغی ہو تم نے وائرس پھیلایا ہے'

بھارت میں کرونا وائرس کا مسلم مخالف رنگ: 'اپنی مدد لے جاؤ تم تبلیغی ہو تم نے وائرس پھیلایا ہے'
کرونا وائرس بیماری پیدا کرنے والا ایک جرثومہ ہے جو انسان میں نظام تنفس کی بیماری پیدا کرتا ہے جس سے متاثرہ فرد کی موت واقع ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ اس تعریف کے مطابق  بظاہر یہ وائرس ایک طبی مسئلہ ہے اور اسکا حل طبی طور پر ہی ممکن ہے مگر حیران کن امر یہ ہے کہ ہر ملک اور قوم نے اسے اپنے مذہبی،سیاسی اور سماجی تعصبات  پر مبنی ایجنڈے کو پروان چڑھانے کے لئے اسکے پھیلاؤ،علاج اور اسباب کو طبی زاویے کے علاوہ ہر زاویہ عطا کردیا ہے۔

کرونا کی آڑ میں اس سیاسی اور مذہبی منافرت کی ترویج کی بد ترین شکل بھارت میں سامنے آرہی ہے جہاں بیس کروڑ سے زائد مسلمانوں کو اس وقت ہندتوا مارکہ نفرت اور مذہبی تعصب کا سامنا ہے۔ جس نے ان کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے۔ بھارتی میڈیا بھی مکمل طور پر ہندتوا حکومت کے ساتھ ملا ہوا ہے۔  کرونا کو لے کر مسلمانوں کے خلاف اس سیاسی و مذہبی پراپیگنڈے نے مسلم کمیونٹی پر روز و شب یوں تنگ کیے ہیں کہ اس کے افراد اب خود کشیوں پر مجبور ہو کر اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ 

دی وائر ڈاٹ ان میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں بھارتی صحافی ہاریش مندیر کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کو خوفناک انداز میں مسلم مخالف روپ میں ڈھال دیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 13 سے 15 مارچ کے دوران تبلیغی جماعت  مرکز میں تبلیغی جماعت نے ایک بہت بڑا اجتماع کروایا جسے نہیں ہونا چاہئے تھا۔ تاہم وہ مرکزی اور صوبائی حکومت کی اجازت کے بعد ہی کروایا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دوران میڈیا نے رپورٹ کرنا شروع کیا اور ایسی اصطلاحات متعارف کروا دی گئیں جس سے اس وائرس کو مکمل طور پر مسلم شناخت دے دی گئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے بھی اسے 'مسجد مرکز کیس' کہا گیا اور یہ باور کرایا گیا کہ بھارت بھر میں کیسز اس جماعت کے اجتماع ہی کی وجہ سے پھیلے ہیں۔

جبکہ مصنف کے مطابق اسی وقت میں مہاراشٹرا سمیت پنجاب اور دیگر ریاستوں میں اس اجتماع سے بڑے ہندو، سکھ اور جین مذاہب کے اجتماعات جاری تھے جنہیں کوئی بھی توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی تبلیغی جماعت کو نرغے میں لیا گیا اور انکے تابڑ توڑ ٹیسٹ کرائے گئے جو کہ اچھی بات ہے، تاہم چونکہ ٹیسٹ کرانے کے لئے صرف جماعت پر ہی زور تھا اس لئے نتائج میں بھی ان سے تعلق رکھنےو الے وہ لوگ زیادہ سامنے آئے جو اس اجتماع میں شریک تھے۔ یوں اس کو بنیاد بنا کر بیانیہ بنایا گیا کہ یہ تبلیغی جماعت ہی ہے جس کی وجہ سے ملک میں یہ وائرس پھیلا جبکہ اصل حقیقت یہ تھی کہ کسی اور پہچان والے مذاہب کے  اجتماعات کو کبھی چیک ہی نہیں کیا گیا اس لئے انکے کیسز بھی سامنے نہیں آئے۔ 

میڈیا کی جانب سے مذہبی منافرت پر مبنی پراپیگنڈے کی مسلسل گردان اور حکومتی سیاسی بیانیے  کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورے بھارت کے مسلمانوں کو مجرم ٹھہرا دیا گیا۔ اس کے بعد بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے ذریعے سوشل میڈیا پر ایسی  جعلی ویڈیوز کا طوفان آگیا جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ کوئی مسلمان شخص غیر مسلموں کو وائرس سے متاثر کرنے کے لئے سبزیوں پر تھوک رہا ہے، مسلمان بیرا ہوٹلوں میں کھانا سرو کرنے سے پہلے اس میں تھوک رہا ہے یا پھر لوگوں پر کھانس رہا ہے۔

اسکے نتیجے میں مسلمان نوجوانوں کو سر عام تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتارنے کے کئی واقعات سامنے آئے جس کی ویڈیوز بنا کر باقاعدہ مسلم کمیونٹی کو دھمکیاں دی جاتی تھیں۔ اسی طرح وہ مسلمان جو تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے تھے ان پر بھی زمین تنگ کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب تبلیغی جماعت کے اراکین میں خودکشیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ 

اب تک ان دو مسلمان افراد نے اپنی کلائی اور گلا کاٹ کر خود کشی کی ہے جنہیں معاشرے میں نفرت کا سامنا تھا۔ جن میں ایک کا تعلق آسام سے تھا اور اور وائرس سے متاثر ہونے کے بعد صحت یاب ہو رہا تھا جس نے ہسپتال میں ہی گلا کاٹ کر خود کشی کی جبکہ دوسرا اونا ضلع سے تعلق رکھنے والا 38 سالہ شہری تھا جسے کوئی وائرس نہیں تھا تاہم قرنطینہ گزارنے کے باعث اسے سماجی بائیکاٹ کا سامنا تھا۔

مصنف لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو روز بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ٹرک ڈارئیورز، رضا کار اور سماجی کارکنوں کو بد ترین تشدد اور نفرت کا سامنا ہے۔ ایسے میں نہ ہی پولیس اور حکومت اور نہ میڈیا انکا ساتھ دے رہا ہے بلکہ میڈیا تو ان واقعات کو کم ہی رپورٹ کرتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران خوراک تقسیم کرنے والے مسلم رضاکاروں کو اکثر ہندو گھروں سے یہ جواب ملتا ہے کہ  'اپنی مدد لے جاؤ، تم تبلیغی ہو وائرس تم نے پھیلا رکھا ہے'۔

اپنے اس مضمون میں انکا کہنا تھا کہ 1947 اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد مودی سرکار کا یہ دور ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ تباہ کن، خونریز اور خوفناک ہے۔ جبکہ ہندوستان کے حکمران یہ سب  مسلمانوں کے لئے ملک کی سر زمین تنگ کرنے کے  سوچے سمجھے ایجنڈے کے تحت کر رہے ہیں۔