قومی حکومت کی تشکیل کیوں ضروری ہے؟

قومی حکومت کی تشکیل کیوں ضروری ہے؟
 

 

میری عمر تقریبا اکتیس سال ہے میرے والد صاحب روزنہ اخبار پڑھتے ہیں تو شروع ہی سے اخبار ہمارے گھر آتا ہے۔ اس کے علاوہ جب رات کے نو بجتے تھے تو والد صاحب پی ٹی وی کا نو بجے کا تفصیلی خبرنامہ لازمی سنتے تھے۔ والد صاحب کی دیکھا دیکھی مجھے بھی سیاست اور خبروں میں کافی دلچسپی پیدا ہوگئی لہذہٰ میں بھی روزانہ اخبار کا مطالعہ کرنے لگا اور نو بجے کا خبرنامہ بھی سننے لگا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اب پی ٹی وی کی جگہ دوسرے چینلز نے لے لی ہے اور خبرنامے سے زیادہ اہم ٹاک شوز بن گئے ہیں۔

 

1988 میں جب میں پیدا ہوا تو اس وقت ضیاالحق کا سورج غروب ہوچکا تھا اس کے بعد جب ہوش سنبھالا تو بے نظیر اور نواز شریف کی سیاسی لڑائی دیکھتے ہوئے بچپن گزررہا تھا اور پھر جنرل مشرف کا دور آگیا مجھے اس وقت اتنا سیاسی شعور تو نہیں تھا لیکن باوجود اس کے میرے والد صاحب پیپلزپارٹی کو زیادہ پسند کرتے تھے مجھے شروع ہی سے نواز شریف پسند تھے کارگل تنازعہ کے وقت بھی میری ہمدردیاں نواز شریف کے ساتھ رہی اور جب جنرل مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا تو اس تو وقت بھی میں نواز شریف کا حامی تھا اور آج تک میری وابستگی صرف ایک ووٹر اور سپورٹر کے طور پر مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں۔ جب میں نےنواز شریف کو سپورٹ کرنا شروع کیا اس وقت نواز شریف ایک عوامی لیڈر بن چکے تھے لہذا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے آج تک کسی غیر جمہوری قوت کی یا ان کے نمائندے کی حمایت نہیں کی اور ہمیشہ جمہوری قوتوں کا حامی رہا ہوں۔ یہ سب کچھ اس لئے بیان کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کچھ اس طرح کی رہی ہے کہ یہاں ہر اچھے کام کو اور ہر اچھی بات کو سیاسی نعروں کی شکل دے کر اپنے مزموم مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے لہزا ایسے میں کوئی بھی جمہوریت پسند قومی حکومت پر بات کرنا تو دور سوچنا بھی حرام سمجھتا ہے۔ جب بھی قومی حکومت کی باتیں ہوتی ہیں جمہوریت پسندوں کو یہ لگتا ہے کہ یہ باتیں کسی کے اشارے پر ہورہی ہیں۔ جس سے ایسا تاثر ابھرنے لگتا کہ قومی حکومت شاید غیرجمہوری قوتوں کا ایجینڈا ہے۔ اور شاید ماضی میں اس تاثر میں کچھ حقیقت بھی ہو لیکن اس وقت جوملک کی سیاسی اور معاشی صورت حال ہے جسے کرونا وائرس نے مزید سنگین بنا دیا ہے۔ اس صورت حال سے نکلنے کا واحد راستہ قومی حکومت ہی ہے بشرطیکہ قومی حکومت کی تشکیل نیک نیتی سے کی جائے اگر مقتدر قوتوں کی جانب سے قومی حکومت کی آڑ میں اقتدار پر مکمل کنٹرول یا سیاسی جماعتوں کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی گئ تو پھر صورت حال موجودہ سے بھی زیادہ گھمبیر ہوجائے گی۔

 

ایک بات یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ قومی حکومت صرف اس لئے نہیں بنائی جانی چاہیے کہ نظام جوں کا توں رہے اور حصہ بقدر جسا کے تحت سیاسی جماعتوں کے درمیان وسائل کی بندر بانٹ ہوجائے اور عوام پستی رہےبلکہ قومی حکومت کا بنیادی مقصد نظام کی درستگی ہونا چاہیے اور نظام کی درستگی کے لئے قومی حکومت کا قیام اس لئے ضروری ہے تاکہ نظام درست کرتے وقت مزاحمت کو کم کیا جاسکے اور جہاں ضروری ہو معاملات کو فیس سیونگز کے ساتھ حل کرلیا جائے کیونکہ اس وقت بگاڑ اتنا زیادہ ہوچکا ہے کہ آپ سو فیصد احتساب اور سوفیصد ریکوری کے فارمولے پر عملدرآمد نہیں کرسکتے ماضی کی گھڑے مردے اکھاڑنے کے بجائے مستقبل کے معاملات کو آئین اور قانون کے مطابق شفاف طریقے سے چلانے اور ٹیکس محصولات میں بہتری کے لئے پالیسی بنانی ہوگی اور اس پالیسی پر عملدرآمد میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا اس کے لئے فیس سیونگ یا ایمنسٹی اسکیمز متعارف کروا کر معاملات کو آگے بڑھانا ہوگا لیکن اس بات کا خاص اہتمام بھی کیا جانا چاہیے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز پر یہ بات واضح کردی جائے کہ یہ فیس سیونگ یا ایمنسٹی اسکیمز پاکستان کی تاریخ کی آخری ایمنسٹی اسکیم ہوگی اس کے بعد تمام معاملات آئین اور قانون کے مطابق سختی سے نمٹائے جائیں گے اور کسی بھی طرح کی رعایت نہیں دی جائے گی۔

 

مزید یہ کہ قومی حکومت کے تمام اغراض مقاصد واضح ہونے چاہیے قومی حکومت کا بنیادی کام پالیسی بنانا ہو ایسی پالیسی جس کے تحت پاکستان کا حکومتی نظام اگلے بیس سے پچیس سال تک چلایا جاسکے جس میں سب سے پہلے کم از کم پچیس سالہ معاشی منصوبہ پر بات ہونی چاہیے جس میں سب سے زیادہ اہمیت امپورٹ کو کم کرنے اور ایکسپورٹ کو بڑھانے پر مرکوز ہو طویل مدتی معاشی پالیسی میں اس بات کی واضح نشاندہی ہونا ضروری ہے کہ وہ کون کون سی اشیا ہیں جن کی پیداوار ملک میں کی جاسکتی تاکہ امپورٹس میں کمی لائی جاسکے اور وہ کون کون سی اشیا ہیں جن کی پیداوار ملک میں بڑھائی جاسکتی ہیں تاکہ انہیں ایکسپورٹ کرکے ملکی زرمبادلہ میں اضافہ کیا جاسکے۔اس کے علاوہ یکساں تعلیم اور صحت کے نظام کے نفاذ سے متعلق پالیسی بنانا بھی ناگزیر ہے۔

 

اس کے علاوہ عوام کے تمام قسم کے ڈیٹا کو روزانہ کی بنیاد پر اپڈیٹ کرنے کا نظام متعارف کروانا ہوگا تاکہ کسی بھی قسم کی ہنگامی صورت حال میں حکومت کے پاس اپڈیٹڈ ڈیٹا موجود ہو مثلا ایک انسان کے پیدا ہونے پر برتھ سرٹیفیکیٹ بنتے ہی اسے ایک کورڈ نمبر جاری کردیا جائے اس کوڈ نمبر پر اس کی ساری زندگی کا ریکارڈ کمپیوٹر پر اپڈیٹ ہونا شروع ہوجائے جب اسے حفاظتی ٹیکے لگیں وہ ریکارڈ بھی اپڈیٹ ہو جب اسے پولیو کے قطرے پلائے جائیں وہ ریکارڈ بھی اپڈیٹ ہو جب بچہ اسکول داخل ہو وہ ریکارڈ بھی اپڈیٹ ہو جب بچہ کالج میں داخل ہو وہ ریکارڈ بھی اپڈیٹ ہو جب اس کا شناختی کارڈ بنے وہ ریکارڈ بھی اپڈیٹ ہو جب یونیورسٹی میں داخل ہو وہ ریکارڈ بھی اپڈیٹ ہو جب وہ ملازمت اختیار کرے وہ ریکارڈ بھی اپڈیٹ ہو جب وہ ٹیکس ادا کرے وہ ریکارڈ بھی اپڈیٹ ہو غرض ایک کوڈ نمبر پر اس شخص کی تمام تر معلومات حکومت کے پاس موجود ہوں تاکہ حکومت کو ہر وقت یہ معلوم ہو کہ اس وقت کتنے بچے اسکول میں داخل ہیں؟ کتنے اور کونسے بچے اسکول میں داخل نہیں ہیں ؟ کتنے لوگوں کے پاس روزگار ہے؟ اور کتنے اور کونسے لوگ بے روزگار ہیں؟ کتنے لوگ دیہاڑی دار ہیں؟ کتنے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں؟ کتنے اوپر ہیں؟ کس کی انکم کتنی ہے؟ کون کتنا ٹیکس دیتا ہے؟ یہ سب معلومات ایک کوڈ کے ذریعے حکومت کے پاس موجود ہونی چاہیے تاکہ اسے مد نظر رکھتے ہوئے پالیسی بنائی جاسکے یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے اور ایسا نظام بنانا انتہائی ناگزیر ہے ورنہ اتنی بڑی آبادی کے مسائل محدود وسائل کے ساتھ حل کرنا ممکن نہیں ہے اگر وسائل محدود ہیں تو ان کا استعمال بھی باریک بینی سے صحیح جگہ پر کرنا ہوگا۔

 

اس کے علاوہ قومی حکومت کے ذمے ایک یہ اہم کام بھی سونپا جانا چاہیے کہ وہ اداروں کے درمیان اختیارات کی کشمکش ختم کرکے اداروں کی حدود واضح کرے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ایک ڈائیلاگ کے ذریعے اتفاق رائے سے نیا ڈھانچہ تشکیل دے جس پر تمام اسٹیک ہولڈرز کا اتفاق ہو تاکہ مستقبل میں دوبارہ اداروں کے درمیان تصادم نہ ہو۔

 

یہ حقیقت ہے کہ ترقی پذیر ممالک آزاد خارجہ پالیسی نہیں رکھتے بلکہ ان کی خارجہ پالیسی عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ لیکن پھر بھی ہمیں اندرونی طور پر اپنی طویل مدتی خارجہ پالیسی واضح کرنی ہوگی۔ تاکہ جسے مد نظر رکھتے ہوئے خارجہ پالیسی میں صرف ضروری تبدیلی کی جاتی رہے۔ بنیادی طور پر قومی حکومت کے ذمے تعلیم صحت معیشت اور خارجہ پالیسی بناکر اس پر اتفاق رائے قائم کروانا اور اس پالیسی کو قابل عمل بنانے کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا اور اس کے لیئے ضروری قانون سازی کرنا ہو جس کے بعد ملک میں آزادانہ اور شفاف الیکشن کروائے جائیں اور جسے عوام چنیں اسے حکومت سونپ دی جائے۔

 

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔