ملک میں قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد ایک آئینی بحران پیدا ہوگیا تھا جس میں پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک مسلسل تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بطور وزیر اعظم کوریج دے رہا تھا اس پر معروف اداکار سید جمال شاہ نے چیلنج کرتے ہوئے ایم ڈی پی ٹی وی اور انفارمیشن سیکرٹری کو نوٹس بھیجتے ہوئے چیلنج کیا کہ پی ٹی وی کا یہ اقدام غیرآئینی ہے۔
جمال شاہ کے مطابق پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک عوام کے ٹیکس پر چلنے والا سرکاری و قومی ادارہ ہے اسے کوئی بھی شخص اپنی ذاتی تشہیر اور مقصد کیلئے ہرگز استعمال نہیں کرسکتا ہے۔
جمال شاہ نے مزید بتایا کہ: پاکستان ٹیلی ویژن ایک قومی چینل ہے لیکن بدقسمتی سے ہر حکومت نے اپنی جماعت کی تشہیر اور مقاصد کے حصول کیلئے اس کے ایئر ٹائم کو مس یوز کرتے ہوئے اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا جو سراسر قومی خزانے اور عوام کے ساتھ ناانصافی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان صاحب نے تو حد کردی کہ باوجود حکومت ختم ہونے کے ہر روز پاکستان ٹیلی ویژن کی اسکرین پر بیٹھ کر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بے بنیاد غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹتے رہے جو انتہائی غیر شائستہ اور غیر قانونی عمل ہے کیونکہ پی ٹی وی پاکستانی عوام کا چینل ہے اور وہ انہی کے ٹیکس سے چلتا ہے۔ لہذا اس پر کسی کا حق نہیں کہ وہ غیر قانونی طور پر اس چینل کو اپنی تشہیر کیلئے استعمال کرے۔
جمال شاہ کہتے ہیں: میں نے اپنی وکیل ایمان زینب مزاری کے ذریعے سیکرٹری انفارمیشن اور منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان ٹیلی ویژن کو قانونی نوٹس بھیجا ہے تاکہ یہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل بند ہوجانا چاہئے۔ کیونکہ یہ چینل کسی بھی فرد واحد یا جماعت کے پروپیگنڈہ کے استعمال کیلئے نہیں اور نہ ہی انکے ذاتی فنڈز سے چلتا ہے چونکہ یہ قومی چینل ہے اور عوام کے ٹیکس سے چلتا ہے تو عوامی مفاد میں ہی آپ اس چینل کو استعمال کرسکتے ہیں لیکن عوامی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دینا غیر آئینی اقدام ہے۔ جیسا کہ عمران خان صاحب وزیراعظم نہ ہوتے ہوئے بھی پاکستان ٹیلی ویژن نیٹورک پر لامحدود وقت لیتا رہا اور پھر فرضی کالز کے جوابات دیتا رہا جس میں ساری کی ساری گفتگو اپنے مخالفین کے خلاف تہمتوں پر منحصر تھی اور ایک قومی ادارے پر بیٹھ کر سیاسی مخالفین کے خلاف انتہائی سخت الزامات لگائے جاتے رہے جس کا ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت بھی نہیں ہے۔
سینئر وکیل ایمان زینب مزاری کے مطابق پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک ایک پبلک اسٹیٹ اون کوآپریشن ہے جو نیشنل براڈکاسٹر ہے اور عام عوام کے ٹیکس پر چلتا ہے لہذا آئینی بحران کے دوران وہ اس طرح کی براڈ کاسٹ نہیں کر سکتا ہے جس میں وہ عمران خان کو ریفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم کہے کیونکہ عمران خان صاحب قانونی طور پر وزیراعظم نہیں تھے۔
ایمان مزاری نے مزید بتایا کہ ایک قومی چینل جو عوام کے ٹیکس سے چلتا ہو وہ حزب اختلاف یا عمران خان کے سیاسی مخالفین پر تہمتیں لگائے گا تو یہ نہ صرف غیر مہذب بات ہوگی بلکہ غیرآئینی بھی ہے۔ کیونکہ ہر قومی ادارے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ غیرجانبدار رہتے ہوئے اپنا کام عام عوام کے مفاد اور آئین کے دائرہ میں رہ کر کرے ناکہ وہ کسی سیاسی جماعت کی سیاسی تشہیر کرے یا ان کے الیکشن کمپئین کو چلا کر اسکے نظریہ کو تقویت دے۔
ایک سوال کے جواب میں ایمان زینب مزاری نے بتایا کہ: اگر انفارمیشن سکریٹری اور منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان ٹیلی ویژن نیٹورک اس نوٹس کا جواب نہیں دیتے تو پھر ہمارے پاس اسلام آباد ہائی کورٹ جانے کا اختیار ہے تاکہ اس غیر قانونی اقدام کا حساب لیا جائے۔ کیونکہ پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک آئینی بحران کے دوران کیسے عمران خان کو بطور وزیر اعظم کوریج دے سکتا ہے؟
سینئر صحافی حامد میر نے جمال شاہ کی ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا تھ کہ: "اداکار جمال شاہ نے مطالبہ کیا ہے کہ عمران خان اب پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا بند کر دیں۔ وہ وزیراعظم نہیں رہے پی ٹی وی عوام کے ٹیکسوں سے چلتا ہے تحریک انصاف کے فنڈز سے نہیں چلتا۔"
اس پر ایک سوشل میڈیا صارف قمر کامی نے لکھا تھا کہ: اداکار جمال شاہ نے 2014 دھرنے کے دنوں میں بھوک ہڑتال کی تھی کہ نواز شریف کی حکومت کو غیر جمہوری طریقے سے نہ ہٹایا جائے‘ جبکہ دوسری طرف یہ طاہر القادری اور عمران خان پر فاشزم کا الزام بھی عائد کر چکے ہیں‘ اب پھر سے الزامات کی کہانی شروع کرنے جا رہے ہیں۔
اسکے جواب میں سید جمال شاہ نے مختصرا کہا کہ: "میں تب بھی درست تھا جو وقت نے ثابت کردیا ہے اور اب بھی درست ہوں جو انشاءاللہ وقت ثابت کرے گا۔"
اس سلسلے میں تحریک انصاف کا موقف جاننے کیلئے رہنما فواد چودھری سے رابطہ کیا گیا مگر انہوں نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ دوسری طرف ایم ڈی پی ٹی وی کا موقف جاننے کی بھی کوشش کی گئی مگر ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔
مصنف برطانوی ادارے دی انڈیپنڈنٹ (اردو) کیساتھ بطور صحافی منسلک ہیں۔ اور مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں میں لکھتے رہتے ہیں۔