چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ ماضی میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات نے ملک میں دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے میں مدد کی۔
آرمی چیف نے گزشتہ ہفتے کے دوران ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اجلاس میں یہ ریمارکس دیے- اجلاس میں اعلیٰ فوجی اور سول افسران نے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے ساتھ نرمی اور لاپرواہی کی پالیسی کا نتیجہ ہے۔
اسی اجلاس میں کمیٹی نے ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف ہمہ جہت جامع آپریشن شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔
پاکستان کے اعلیٰ فوجی حکام نے جمعہ کو قومی اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں آرمی چیف اور عسکری حکام نے اہم قومی امور پر ایوان کو اعتماد میں لیا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پارلیمنٹ میں سکیورٹی صورتحال پر بریفنگ کے دوران کہا کہ ہمیں نئے اور پرانے پاکستان کی بحث کو چھوڑ کر ہمارے پاکستان کی بات کرنی چاہیے۔
آرمی چیف نے کہا کہ اس مہم میں نہ صرف سیکیورٹی ایجنسیوں بلکہ حکومت کے تمام محکموں کی نمائندگی بھی شامل ہوگی۔ یہ کوئی نیا آپریشن نہیں ہے بلکہ پوری قومی سوچ ہے۔ یہ عوام کے غیر متزلزل اعتماد کی عکاسی کرتا ہے جس میں ریاست کے تمام عناصر شامل ہیں۔اللہ کے فضل سے اس وقت پاکستان میں کوئی نو گو ایریا نہیں رہا۔
ان کا کہنا تھا اس کامیابی کے پیچھے ایک کثیر تعداد شہداء و غازیان کی ہے۔ شہداء و غازیان نے اپنے خون سے اس وطن کی آبیاری کی۔ ان میں 80 ہزار سے زائد افراد نے قربانیاں پیش کیں جن میں 20 ہزار سے زائد غازیان اور 10 ہزار سے زائد شہداء کا خون شامل ہے۔
آرمی چیف نے اس موقع پر کہا کہ ریاستی رٹ تسلیم کرنے کے علاوہ دہشتگردوں کے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔ دہشتگردوں سے مذاکرات کا خمیازہ ان کی مزید گروہ بندی کی صورت میں سامنے آیا۔ ملک میں دائمی قیامِ امن کے لیے سکیورٹی فورسز مستعد ہیں۔ اس سلسلے میں روزانہ کی بنیاد پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن جاری ہیں۔
انھوں نے کہا کہ عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں۔ پاک فوج ملکی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔
اراکین قومی اسمبلی نے ڈیسک بجا کر اور تالیوں سے آرمی چیف کے خیالات کا خیر مقدم کیا۔