Get Alerts

کیا پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ ہار گیا؟

کیا پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ ہار گیا؟
یہ حساس معاملات ہیں، ان پر بات کرنے یا سوال کرنے کی جرات تو بہت بڑے بڑے لوگ نہیں کرسکتے تو میرے جیسے بے روزگار صحافی کی کیا مجال کہ لب کشائی کروں لیکن چونکہ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ آپ آزاد ہیں تو میں اپنی اس آزادی کو ایک امتحان میں ڈال کر دیکھتا ہوں کہ کیا واقعی ہم آزاد ہیں؟ کیا واقعی ہم اپنے پاکستان میں سیاہ وسفید کے مالک حکمرانوں سے سوالات پوچھ سکتے ہیں؟

گذشتہ کئی دنوں سے دیر اور سوات سے بہت ہی افسوس ناک خبریں آ رہی ہیں۔ مین سٹریم میڈیا صحافت سے زیادہ روزگار کے چکر میں ہے، اس لئے وہاں ان خبروں کا کوئی ذکر نہیں لیکن ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں۔ یہ ڈیجیٹل میڈیا یا سوشل میڈیا کا دور ہے جہاں آپ حقائق کو چھپا نہیں سکتے اور ایسے میں مین سٹریم میڈیا کی خبروں پر جاگیرداری بھی ختم ہو چکی ہے۔

گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ محمود خان کے آبائی علاقے مٹہ میں ایک ڈی ایس پی اور قانون نافذ کرنے والے عہدیداروں کو طالبان نے اغوا کیا جنہیں ایک ´ایٹمی ریاست´ پاکستان کی انتظامیہ نے مذاکرات کے ذریعے بحفاظت بازیاب کرایا۔

اسی طرح خیبر پختونخوا میں لوئر دیر سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ایم پی اے پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں ممبر صوبائی اسمبلی ملک لیاقت کا بھائی، بھتیجا یاسر، ایک پولیس اور ایک لیوی اہلکار جاں بحق ہو گئے جبکہ زخمیوں میں ملک لیاقت علی سمیت چار افراد شامل ہیں۔

پولیس کے مطابق ´نامعلوم´ افراد نے ممبر صوبائیی اسمبلی پر حملہ کیا۔ تو کیا یہ نامعلوم افراد ایک ایٹمی ریاست سے طاقتور ہیں؟ یہ کیا منطق ہے کہ نامعلوم افراد نے حملہ کیا تو ´بھائی لوگوں´ یہ اربوں کے ٹیکس ہم آپ پر یعنی قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اسی لئے لگا رہے ہیں کہ جب ہمارے پیارے قتل کیے جائیں توآپ ہمیں نامعلوم کی تسلی دیں؟

ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جس شہری کے قاتل کا معلوم نہ ہو، اس کا مقدمہ ان قانون نافذ کرنے والے عہدیداروں پر درج کیا جائے جن کی غفلت کی وجہ سے ان کی جان چلی گئی؟

اسی طرح وزیراعلیٰ محمود خان اور صوبائی حکومت کے دیگر وزرا کو دھمکیاں مل رہی ہیں جس کی تصدیق سابق وزیراعظم عمران خان نے یہ کہہ کر کی کہ انہیں اس میں بھی ایک سازش نظر آ رہی ہے۔

یہ سارے معاملات دیکھتے ہوئے کئی سوالات ایسے ہیں جو مجھے چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ وہ یہ ہے کہ کیا پاکستان گذشتہ بیس سال سے لڑی جانے والی امریکی جنگ یعنی دہشتگردی کے خلاف جنگ ہار گیا ہے؟

اپنے شہریوں کو تحفظ دینا ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے تو جس حکومت کے وزیراعلیٰ کے اپنے آبائی علاقے میں یہ صورتحال ہو اور جس کے وزرا کو دھمکیاں مل رہی ہوں اور خود عدم تحفظ کا شکار ہو تو وہ عام شہریوں کو کیا تحفظ دے سکے گی؟

وہ مثالی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے جو اپنے ہی افسران کو مذاکرات کے ذریعے بازیاب کریں تو وہ عام شہریوں کو کیا تحفظ دینگے؟ ہمیں تو بتایا گیا کہ سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کو کلیٸر کرایا گیا اور دہشتگردوں کی کمر توڑ دی گئی تو پھر ایسے واقعات کیوں پیش آ رہے ہیں؟

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ افغانستان سے مسلح افراد یا مبینہ طالبان سوات کے بندوبستی علاقے تک پہنچ کیسے گئے؟ کیا اتنے لمبے راستے میں کسی نے ان کو روکا نہیں؟ کسی نے ان سے پوچھا نہیں کہ آپ کون ہیں اور کہاں جا رہے ہیں؟ کیا یہ درجن سے زیادہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں ہے؟ دیر اور سوات کے عوام نے امن مارچز کرکے شاید ریاست کو پیغام دیا کہ وہ مزید قربانی کا بکرا بننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی کی خبر کے مطابق ´پاکستانی طالبان نے سوات کے پہاڑی علاقوں پر اپنا قبضہ ختم کرکے وہاں سے واپسی شروع کر دی ہے۔ طالبان اس وقت دیر کے راستے ممکنہ طور پر افغانستان واپس جا رہے ہیں۔ سوات میں ممکنہ فوجی آپریشن بھی ملتوی کیا گیا ہے´ لیکن میں اپنا سوال پھر سے دہراتا ہوں کہ مسلح افراد افغانستان سے سوات پہنچ کیسے گئے؟ اور انگریزی اخبار دی نیوز انٹرنیشنل کے مطابق انہوں نے بالاسور ٹاپ میں چیک پوسٹ تک قائم کی تو اس وقت تک سیکیورٹی نافذ کرنے والے ادارے کہاں تھے؟

کیا ریاست پاکستان کے نازک اور حساس مزاج رکھنے والے ´حساس حکمران´ میرے ان سوالات کے جوابات دے سکتے ہیں؟ یا مجھے بھی کسی ´نامعلوم´ کی گولی کے رحم وکرم پر چھوڑا جائے گا؟