انوار الحق کاکڑ پر نہیں ان کے بیانیہ پر اعتراض ہے: اختر مینگل

سردار اختر مینگل نے کہا کہ نواز شریف کو خط اس لیے لکھا کہ گلے شکوے ہمیشہ گھر کے بڑوں سے کیے جاتے ہیں۔میرے خط سے لوگ متفق لیکن خاموش ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اظہار شروع کردیں گے۔

انوار الحق کاکڑ پر نہیں ان کے بیانیہ پر اعتراض ہے: اختر مینگل

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل ( بی این پی، ایم) کے سربراہ سردار اختر مینگل  کا کہنا ہے کہ   شہباز شریف سے کہا تھا ایسا نگران وزیراعظم نہ لائیں جو جمہوریت کا گورکن بن جائے۔ 

اختر مینگل نے جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انوار الحق کاکڑ سے ان کا ذاتی جھگڑا نہیں۔ انوار الحق کاکڑ سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ان کے بیانیہ پر اعتراض ہے۔ اختلاف اس پر ہے کہ وہ لاپتا افراد کے مسئلے کو مسئلہ نہیں سمجھتے۔ 

ان سے سوال کیا گیا نگران وزیراعظم کا اعلان شہباز شریف کی جانب سے کیا گیا لیکن خط نواز شریف کو لکھا گیا اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پرانہوں نے کہا کہ نواز شریف کو خط اس لیے لکھا کہ گلے شکوے ہمیشہ گھر کے بڑوں سے کیے جاتے ہیں۔میرے خط سے لوگ متفق لیکن خاموش ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اظہار شروع کردیں گے۔

سردار اختر مینگل نے کہا کہ نواز شریف کو دوسرا خط لکھا ہے پہلا خط  12جولائی 2022 کو لکھا تھا۔ نگران وزیراعظم کا معاملہ خط کا ایک جز تھا دوسرے گلے شکوے بھی کیے۔ خط میں بلوچستان کے مجموعی حالات کا ذکر کیا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ خط میں بلوچستان کے مجموعی حالات کا ذکر کیا ہے۔ بلوچستان کو ڈیتھ سکواڈ کے سپرد کردیا گیا ہے۔  ڈیتھ سکواڈ کے کارندوں کو ہماری پارٹی کے مدمقابل ترقیاتی فنڈز دیئے جارہے ہیں۔  انہیں سیکیورٹی فورسز کی طرف سے سیکیورٹی مہیا کی جارہی ہے۔بی این پی کے امیدواروں کے مقابلہ میں جرائم پیشہ عناصر کو فنڈز دیئے جارہے ہیں۔ ان عناصر کو سالانہ ایک ارب فنڈ دینے کا مطلب ہمارے پارلیمنٹ میں جانے کا راستہ بند کرنا ہے۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز کے فنڈز میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ ہر علاقے میں وسائل کی تقسیم مساوی ہوتی تو ٹھیک ہوتا۔

انتخابات کے 90 دن میں انعقاد کے حوالے سے سردار اختر مینگل نے کہا کہ لوگ 90 دن کے لیے آتے ہیں 9 سال بھی گزار دیتے ہیں۔ 2 ماہ کے لیے آنے والے 12 سال بھی گزار دیتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف سے کہا تھا یہ اختیار آپ کا ہے کہ آپ جس کو بھی منتخب کریں لیکن ایسا نگران وزیراعظم نہ لائیں جو جمہوریت کا گورکن بن جائے۔

اس سے قبل سردار اختر مینگل نے نگران وزیراعظم کے تقرر پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے قائد مسلم لیگ ن نواز شریف کو خط لکھا۔

اپنے پیغام میں اختر مینگل نے لکھا کہ میرا یہ خط  22 جولائی 2022 کے میسج کا تسلسل ہے جن مسائل کا ذکر میں نے پہلے کیا تھا کاش ان میں کمی آتی مگر آج بھی بلوچستان کے مسائل وہیں کے وہیں ہیں۔ سیاسی حل کے بجائے بندوق سے مسئلے کے حل کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے لکھا کہ میاں صاحب ہم پر جو گزری یا گزر رہی ہے وہ ہماری قسمت ہے مگر حیرانی اس بات پر ہے کہ جو آپ لوگوں پرگزری اس سے ابھی تک آپ نے سبق نہیں سیکھا، موجودہ حالات کا حل سیاست دانوں کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی مشاورت سے تلاش کیا جا رہا ہے۔

اختر مینگل نے کہا کہ ہمیں جنرل ایوب سے جنرل مشرف تک کے مظالم اچھی طرح یاد ہیں لیکن آپ کی جماعت مشرف اور باجوہ کی سازشوں اور غیر آئینی اقدامات کو اتنی جلدی فراموش کر گئی۔ جمہوری اداروں کو کمزور کر کے غیر جمہوری طاقتوں کو مزید طاقتور کرنا جمہوریت کے تابوت میں مزید کیل ٹھوکنے کے مترادف ہوگا۔

انہوں نے لکھا کہ انسانی حقوق کے برخلاف قانون سازیاں شاید ہم سے زیادہ مستقبل میں آپ حضرات کے ہی خلاف استعمال کی جائیں گی کیونکہ ہم بلوچستان کے باسیوں کو روز اول سے انسان سمجھا ہی نہیں گیا۔

سردار اختر مینگل کا مزید کہنا تھا نگران وزیراعظم کیلئے ایسے شخص کی نامزدگی کی گئی جس سے ہمارے لیے سیاست کے دروازے بند کر دیے گئے۔ آپ کے اس طرح کے فیصلوں نے ہمارے درمیان مزید دوریاں پیدا کر دیں۔