غیر شفاف انتخابات نے ملک کو دولخت کیا۔ ایک بار پھر سندھ کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے

مصنف: بیرسٹر ضمیر گھمرو (سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ)

ترجمہ: رب نواز بلوچ

اس بات پر کوئی دو رائے نہیں کہ فیڈریشن میں دو مسائل انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، باقی مسائل ان دو کی پیداوار ہیں۔ ان مسائل میں ایک فیڈریشن کا آئین کے تحت صاف و شفاف انتخابات کے بعد اقتدار منتخب عوامی نمائندوں کے حوالے کرنا ہے، اور دوسرا وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو آئین میں دیے گئے اختیارات پر عمل کروانا ہے۔

یہ مسائل 1947 سے لے کر آج تک چلتے آ رہے ہیں جنہیں حل نہ کرنے کی وجہ سے انسانی حقوق کی پامالی، معاشی ابتری، خراب حکمرانی، غربت، دہشتگردی، نسل پرستی، مذہبی انتہا پسندی، امن و امان، تعلیم اور صحت کی ابتری جیسے مسائل درپیش ہیں۔ اب اگر مندرجہ بالا دو اہم اور بنیادی مسائل کو نظرانداز کیا جائے گا تو ایسے بحران پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے، لیکن ملک کے کرتا دھرتا مندرجہ بالا بنیادی مسائل پر بات کرنے کے بجائے یا ان کا کوئی مستقل حل نکالنے کے بجائے انسانی حقوق، غربت، معاشی بدحالی، تعلیم و صحت پر عوام کو لیکچر دے کر اپنا وقت گزارنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

امن امان قائم کرنا سائنس ہے۔ اسی طرح معیشت کو سدھارنا آرٹ ہے۔ لیکن یہاں مقصد صرف یہ ہے کہ عوام کو گمراہ کرنے کے لئے مختلف قسم کے تھیٹر لگائے جائیں۔ اور وفاق کے جانب سے لگائے گئے اس تھیٹر کا واحد مقصد سندھ کی چادر چوری کرنا ہے کیونکہ وفاق میں صاف و شفاف انتخاب نہ ہونے کی وجہ سے فسطائیت مسلط ہے۔



وفاق اور صوبے میں اختیارات کی تقسیم بری طرح متاثر ہے۔ سندھ وفاق کے کل روینیو کا 70 فیصد جمع کرتا ہے، سندھ کے وسائل، آئین اور قانون کی غلط تشریح کی وجہ سے سندھ سے چھینے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی سوال کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ مسائل تو 1947 سے حل طلب ہیں۔ ان مسائل کے حل کی بات کریں تو وفاق کے حمایت یافتہ ٹولے کو جیسے شدید بخار چڑھ جاتا ہے اور وہ یکایک اپنا سبق دہرانے لگتے ہیں کہ فلاں کو گرفتار کرو، فلاں ادارے میں کرپشن ہے، فلاں افسر ایماندار ہے، ہمارے معاشرے میں ایمانداری کی کمی ہے۔ ان مزاحیہ دلائل سے عوام پریشان ہو جاتے ہیں، لیکن دلیلیں گھڑنے والے بڑی ڈھٹائی سے اپنا مدعا بیان کرتے رہتے ہیں۔

عام انتخابات میں دھاندلی کی تاریخ:

پاکستان بننے کے فوراً بعد 1947، 1948، 1949 میں سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) سندھ اور بلوچستان میں منتخب حکومتیں ختم کی گئیں۔ 1947 سے 1951 کے درمیان سندھ میں غلام حسین ہدایت اللہ، ایوب کھڑو (دو مرتبہ) پیر الٰہی بخش، یوسف ہارون، قاضی فضل اللہ، یعنی 6 وزرائے اعلیٰ آئے۔ اسمبلی نے اپنی آئینی مدت پانچ سال میں مکمل کرنی تھی، لیکن اس پانچ سال کی مدت میں 6 وزرائے اعلیٰ لائے گئے۔ مجموعی طور پر ایک وزیر اعلیٰ ایک سال سے بھی کم مدت مکمل کر سکا۔ اس کے بعد 1951 میں سندھ میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ 1953 میں جھرلو الیکشن کروائے گئے اور پھر اُس اسمبلی سے متنازع ون یونٹ کے حق میں قراداد پاس کروائی گئی۔

سندھ کی قومی اور صوبائی حیثیت کو ختم کر دیا گیا۔ اس طرح جس آئین ساز اسمبلی میں دیگر صوبوں نے شمولیت اختیار کرنی تھی، وہ آئین ساز اسمبلی جس نے فیڈریشن بنانا تھی، اسی اسمبلی کے ذریعے فیڈریشن بنانے میں تاخیر کی گئی کہ کہیں آئین کے تحت ہوئے انتخابات صاف و شفاف نہ ہو جائیں۔ اس سے لیاقت علی خان اینڈ کمپنی اور پھر اس کے بعد آنے والے گورنر جنرل غلام محمد، اسکندر مرزا اور جنرل ایوب کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔ اس کے نتیجے میں آئین ساز اسمبلی، جس میں صوبے شامل ہوئے تھے، کو اکتوبر 1954 میں توڑ دیا گیا، اور ملک پر ون یونٹ مسلط کیا گیا اور اور پھر 1956 میں ایک آئین مسلط کر دیا گیا۔ یہ آئین قرارداد لاہور اور 3 جون پلان کا حصہ تھا۔



بنگال سمیت پاکستان کے پانچ صوبے تھے، لیکن اس آئین کے تحت صرف دو صوبے یعنی مغربی اور مشرقی پاکستان بنا دیے گئے۔ انتہائی اہم بات یہ ہے کہ اس مسلط شدہ آئین کے تحت انتخابات فروری 1959 میں کرانے کا اعلان کر دیا گیا، پر اس سے پہلے ہی آئین کو سبوتاژ کرتے ہوئے 1958 میں مارشل لا لگا دیا گیا۔

ایوب، غلام محمد اور اسکندر مرزا کی آپسی گیم تو 1955 میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ اسکندر مرزا 1955 میں علاج کی غرض سے لندن گئے اور گورنر جنرل غلام محمد کو ہٹا کر خود ہی گورنر جنرل بن گئے تھے۔ پھر 1958 میں ایوب خان نے اپنے محسن اسکندر مرزا (جس نے جونئیر ہونے کے باوجود اسے چیف آف آرمی سٹاف بنایا تھا) کو ہٹا دیا تھا۔ واضح رہے کہ غلام محمد، اسکندر مرزا اور ایوب خان تینوں لیاقت علی خان کے آدمی تھے۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ان کے قتل کے چھینٹے بھی ان تینوں پر پڑتے رہے۔

ان سب نے سازش کرتے ہوئے نہ صرف فیڈریشن نہیں بننے دی بلکہ اقتدار کی ہوس کی وجہ سے کسی حکومت کو چلنے نہیں دیا۔ 1951 سے 1958 تک سات وزرائے اعظم تبدیل ہوئے، بالکل اسی طرح جیسے سندھ میں 1946 سے 1951 تک 6 وزرائے اعلیٰ تبدیل کیے گئے تھے۔

اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ کسی طرح صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد نہ ہو اور ملک میں متفقہ آئین نہ لایا جا سکے۔ ایوب خان نے اپنے اقتدار کو وسعت دینے کے لئے جنگ بھی کی۔ مطلب الیکشن نہ کرانے کی خاطر جنگ میں کود پڑے۔ اسی طرح جنرل یحییٰ نے ایل ایف او کے تحت الیکشن کرائے۔ دسمبر 1970 میں کرائے گئے انتخابات کے بعد حکومت عوامی نمائندوں کو منتقل کرنے کے بجائے الیکشن نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا اور پھر جنگ شروع ہو گئی جس کے بعد ملک دو لخت ہو گیا۔



اب اندازہ ہوگیا ہوگا کہ صاف و شفاف الیکشن کے خوف سے اور اپنے اقتدار کو طول بخشنے کے لئے جنگیں کی گئیں، اس کے باجود آج تک ملک میں صاف و شفاف انتخابات کو بنیادی مسئلہ قرار نہیں دیا جا سکا، حالانکہ اسی وجہ سے ملک دو لخت ہوا تھا۔

وفاق اور صوبوں میں اختیارات کی منصفانہ تقسیم:

1973 کے آئین میں صوبوں اور وفاق کے درمیان اختیارات کی منصفانہ تقسیم واضح ہے کہ وفاق کی لسٹ میں شامل اسم وفاقی حکومت کے، وفاقی لسٹ پارٹ (1) میں شامل اسم مشترکہ مفادات کونسل کے، باقی تمام اسم صوبوں کے حوالے ہوں گے۔ صرف تین اسم ہر ایک کرمنل قانون، استغاثہ کے قوانین اور کرمنل پروسیجر پر وفاق اور صوبے مل کر قانون سازی کریں گے۔ اس کے باوجود ان اسموں پر بھی انتظامی عملداری، عدالتیں بنانے کے اختیارات بھی آئین کے آرٹیکل 97 کے تحت صوبوں کے پاس ہیں۔ اگر اختیارات پر ٹکراؤ آئے گا تو اس کا حل سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔ وفاق اور صوبے اس میں صرف الگ الگ فریق ہوں گے، بالکل اسی طرح جیسے اقوام متحدہ کے چارٹ میں عالمی عدالت انصاف میں دونوں فریق صرف ریاستیں ہوتی ہیں۔

مرکز میں دھاندلی زدہ سرکار موجود ہے، جو صوبائی معاملات پر بھی قانون سازی کر رہی ہے جو کہ ان کا اختیار نہیں۔ مثال کے طور پر وفاقی سرکار پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی قائم کر چکی ہے۔ یہ مکمل طور پر صوبائی معاملہ ہے۔ اسی طرح سندھ میں پولیس محکمے میں ایس پیز کے تبادلے ہو رہے ہیں۔ یہ بھی مکمل طور پر صوبائی معاملہ ہے۔ اسی طرح صوبوں اور وفاق کے درمیان تنازعات کے حل کے لئے فورم اپنی افادیت کھو چکا ہے، جس کی وجہ سے محترمہ بینظیر بھٹو نے چارٹر آف ڈیموکریسی میں یہ شق شامل کروائی تھی کہ چاروں صوبوں میں برابری کی بنیاد پر وفاقی آئینی عدالت بنائی جائے گی۔

یہ ایک تعجب کی بات ہے کہ اگر صوبوں اور وفاق میں کسی معاملے پر اختلاف ہے تو یہ معاملہ سیدھا سپریم کورٹ میں جائے گا۔ فریق صرف وفاق یا صوبہ ہوگا، کوئی عام شہری نہیں ہو سکتا۔ پر جناح اسپتال، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی اور چائلڈ انسٹی ٹیوٹ کی صوبوں کو منتقلی کےخلاف درخواست ان اداروں کے ملازمین نے دیِ۔ ہائی کورٹ یہ معاملہ دیکھنے کی مجاز نہیں۔ آئینی حدود کو دیکھنے کے بجائے عدالت نے تینوں اسپتال وفاق کے حوالے کر دیے۔



اس صورتحال میں کوئی صوبہ کیونکر عدالتی فورم استعمال کرے گا؟ عوام کے بنیادی معاشی، سماجی، انسانی حقوق ان دو اہم ترین آئینی معلاملات کے حل کے تابع ہیں، یعنی ملک میں صاف و شفاف انتخابات اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی آئینی تقسیم پر عملدرآمد۔ حل طلب مسائل کے لئے فورم کا ہونا بھی لازمی ہے وگرنہ انسانی اور معاشی حقوق چھینے جائیں گے۔ ان معاملات کو دبانے کی خاطر غیر اہم معاملات کو اچھالا جاتا ہے، جیسا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری، اپوزیشن جماعتوں کے دیگر رہنماؤں کی گرفتاری، مخالفین پر سیاسی کیسز، جبری گمشدگی وغیرہ۔ ان تمام ایشوز کو سامنے لانے کے پیچھے ایک ہی وجہ کار فرما ہے کہ رضاکاروں کے ذریعے حکومت چلائی جائے۔ اس نظریہ کو نافذ کر کے کب تک عوام کو گمراہ کیا جا سکے گا؟

سندھ کے عوام کو نان ایشوز میں الجھا کر دونوں انتہائی اہم معاملات سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے، جو کہ بہت بڑی سازش ہے۔ اگر سندھ کے عوام مختلف صورتوں میں ان مسائل کو اجاگر کرتے رہے کہ صاف و شفاف انتخابات اور اختیارات کی منصفانہ تقسیم کا مکمل اور جامع سسٹم بنایا جائے، تو ان دونوں معاملات کے حل کے بعد ازخود باقی انسانی، معاشی، سماجی، سیاسی اور مالی معاملات اپنے ہاتھ میں آ جائیں گے۔ ان دو معاملات کے حل نہ ہونے کی صورت میں حقوق ملنا تو دور کی بات آئین پر مکمل عملدرآمد مشکل ہو جائے گا۔ وفاق میں دھاندلی زدہ سرکار کا مقصد صرف ایک ہے کہ صوبوں کو آئین میں دیے گئے اختیارات واپس لیے جائیں۔ کئی مواقع پر نہ صرف وفاق بلکہ پارلیمنٹ نے بھی صوبائی معاملات پر قانون سازی کی ہے، جب کہ آئین کے آرٹیکل 142 میں پارلیمنٹ پر صوبوں کے معاملات میں مداخلت یا قانون سازی پر مکمل پابندی عائد ہے۔ 1973 کے آئین سے لے کر اب تک جتنے بھی صوبائی معاملات میں مداخلت ہوئی ہے اس پر الگ بحث کرنی ہوگی۔ ان معاملات کی وضاحت ضروری ہے کہ سندھ کے عوام ان دو آئینی معاملات پر اپنا مؤقف واضح رکھیں۔ بنیادی طور پر ان دونوں آئینی معاملات پر سندھ کو متحد اور یک زبان ہونا ہوگا۔

(یہ مضمون روزنامہ سندھی اخبار کاوش میں شائع ہو چکا ہے اور قارئین کی معلومات واسطے رب نواز بلوچ نے نیا دور کے لئے اردو میں ترجمہ کیا ہے)