یاسر حمید کا ایک عاشق، اور کرکٹ کا شیدائی کیسے طالبان کے ہتھے چڑھ کر ڈرون حملے میں مارا گیا

یاسر حمید کا ایک عاشق، اور کرکٹ کا شیدائی کیسے طالبان کے ہتھے چڑھ کر ڈرون حملے میں مارا گیا
وہ قد کے چھوٹے اور رنگ کے بہت گورے تھے مگر ان کی ناک منہ کی طرف زیادہ جھکی ہوئی تھی جن کی وجہ سے ہم کلاس روم میں اُن کا اکثر مذاق اُڑاتے تھے۔ قد کے تو وہ چھوٹے تھے مگر اس چھوٹے میں بے پناہ جذبہ اور حوصلہ تھا۔ پڑھائی میں تو وہ نارمل ہی تھے مگر کرکٹ پر جان نچھاور کرتے تھے اور کرکٹر یاسر حمید کے دلدادہ تھے۔ ہمیں بھی کرکٹ کا جنون تھا مگر ان کی ایک خواہش تھی کہ وہ یاسر حمید کی طرح کرکٹر بن جائیں۔

کرکٹ کا جنون ان کے دل و دماغ میں بسا ہوا تھا اور سکول سے چھٹی کے بعد ہم اخبارات کے سٹال پر جاتے تھے مگر اُن کی خبروں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ بس جس اخبار یا کھیل کے رسالے میں یاسر حمید کی تصویر نظر اتی تھی اس اخبار اور رسالے کو خرید کر گھر لے جاتے تھے اور پھر یا تو گھر کی دیوار پر چسپاں کرتے تھے یا پھر کتابوں کو کور لگاتے وقت وہ تصویر کور کے اندر بند کرتے تھے۔ ان کے سکول کے بیگ میں کوئی ایسی کتاب نہیں تھی جس پر یاسر حمید کی تصویر نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ جب وہ کسی اخبار سے یاسر حمید کی چھوٹی تصویر کاٹتے تھے تو اس کو جیب یا پھر اپنے پرس میں رکھتے تھے۔ ان کا ایک ہی ارمان تھا کہ کسی طرح یاسر حمید سے ملاقات ہوجائے مگر زندگی میں ان کی ملاقات پوری نہیں ہوئی۔

وہ دل کے بہت اچھے تھے مگر ان کی پلکیں ایک منٹ میں درجنوں بار جھپکتی تھیں حالانکہ ان کے لئے یہ کوئی ابنارمل چیز نہیں تھی مگر ہم ان کا مذاق اُڑاتے تھے کہ یار تیری آنکھوں میں کونسی مشینری لگی ہے کہ تیری پلکیں ایک منٹ میں درجنوں بار جھپکتی ہیں جس پر وہ نہ صرف غصہ کرتے تھے بلکہ خوب گالیاں دیتے تھے اور کرسی چھوڑ کر وہ دوسری جگہ بیٹھ جاتے تھے۔

سکول کے ٹیم کے وہ اوپنر بلے باز تھے جبکہ فیلڈنگ میں وہ کمال کے تھے اور یہی وجہ تھی کہ سکول کے اساتذہ اکثر کہتے تھے کہ یہ بڑے ہو کر قومی ٹیم کا حصہ بن جائیں گے مگر شائد وہ اپنی تقدیر سے بے خبر تھے۔



کرکٹ کے تو وہ جنونی تھے مگر پڑھائی میں بس نارمل ہی تھے، جس کی وجہ سے اکثر ہم سب کبھی مرغا بن کر ڈنڈے کھاتے تھے یا پھر سخت سردی کی صبح میں ہاتھوں پر جس کی وجہ سے ہماری حالت غیر ہو جاتی تھی مگر ان کے ہاتھ بہت نازک تھے اور وہ پھر کئی منٹ تک درد کی وجہ سے روتے تھے مگر بے رحم سکول کے اساتذہ کو ہم پر رحم ہی نہیں آتا تھا۔

پاکستان انڈیا کے میچز اکثرسکول سے چھٹی ہونے کے بعد شروع ہو جاتے تھے مگر جس دن میچ ہوتا تھا۔ ان کا دل بہت بے قرار رہتا تھا اور اس دن وہ پڑھائی سے بالکل بے زار رہتے تھے اور چھٹی کا انتظار کرتے تھے کہ کس طرح دن گزر جائے اور میچ کا وقت قریب آ جائے۔ مگر اُن کو چھٹی سے زیادہ ٹینشن بجلی کی رہتی تھی کیونکہ قبائلی علاقوں میں بجلی دن میں ایک بار نمودار ہو جاتی تھی، کھبی دس منٹ کے لئے تو کبھی آدھے گھنٹے کے لئے۔ جنریٹر تو ان کے گھر میں اپنا تھا مگر پٹرول ڈالنے کے لئے وہ دوستوں کی منت کرتا تھا تاکہ پورا میچ دیکھ سکے۔

کلاس میں کرسیاں دو حصوں میں تقسیم ہوتی تھیں اور بیچ میں جو راستہ تھا اس میں وہ کھڑے ہو کر گیند پھینکنے اور شاٹ کھیلنے کے پوز بناتا تھا اور منہ سے آواز بھی نکالتا تھا اور دوسری جانب دوستوں کی گالیاں شروع اور کھبی کھبی تو کوئی ان کو دونوں ہاتھوں میں اُٹھا کر واپس ہوا میں چھوڑ دیتے
تھے جس پر وہ گالیاں دینا شروع کرتے تھے۔

ان کے والد قومی ایئرلائن میں کلرک کے عہدے پر تعینات تھے اور ان کا گزارا اچھا چلتا تھا کیونکہ وہ صرف دو ہی بھائی تھے اور دونوں والدین کے لاڈلے تھے۔ مگر ان کو جیب خرچ سے زیادہ جہاز میں گھومنے پھرنے کا شوق رہتا تھا۔ ان کے والد چونکہ قومی ایئرلائن میں نوکر تھے اس لئے ان کو کچھ ٹکٹس فری ملتی تھی اور اکثر وہ کراچی یا پھر لاہور فری ٹکٹ پر گھومتے پھرتے تھے۔ جب وہ کلاس میں آتے تھے اور جہاز پر گھومنے پھرنے کی کہانی سناتے تھے تو ہم دنگ رہ جاتے تھے کہ یار عجیب بات ہے جہاز کے اندر سروسز فراہم کرنے والی خواتین ہوتی ہیں اور جہاز کے اندر سکرین پر فلم بھی دکھاتے ہیں۔ مگر جب وہ کہتے تھے کہ یار جہاز کے اندر ٹوائلٹ بھی ہوتا ہے تو ہم یقین نہیں کرتے تھے اور ان سے پوچھتے تھے کہ یار پھر انسان جب ٹوائلٹ میں پیشاب کرتا ہے تو وہ تو نیچے جائے گا اور لوگوں پر گرے گا اور اس حیرانی کا اس کے پاس بھی کوئی جواب نہیں ہوتا تھا مگر وہ کہتے تھے جب ابو اس بار گھر آئیں گے تو ان سے ضرور پوچھوں گا۔



وقت گزرتا گیا اور ہم آٹھویں جماعت میں پہنچ گئے اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ سکول سے جانے کے بعد وہ کرکٹ کھیلتے ہیں اور پھر اس کے بعد ایک رشتہ دار کے کلینک پر بیٹھتے ہیں جو ڈاکٹر ہے۔ وہ بتاتے تھے کہ بس مجھے اچھا لگتا ہے کہ لوگوں کی خدمت کروں اور بس کرکٹ کے ساتھ ساتھ ڈاکٹری بھی سیکھو۔

وقت گزرتا گیا۔ انہوں نے پانچ وقت کی نماز پابندی سے پڑھنی شروع کر دی اور ساتھ ہلکی ہلکی داڑھی بھی رکھ لی۔ یقین کریں کالی داڑھی ان کے سرخ چہرے پر بہت سجتی تھی مگر پتہ نہیں آنکھوں میں سرما لگا کر وہ عجیب
سے لگتے تھے جس پر ہم اکثر ان کو تنگ کرتے تھے۔ زندگی کے دن تیزی سے گزرتے رہے اور آہستہ آہستہ ان کی شخصیت میں تبدیلی آتی گئی۔ اب نہ تو وہ کرکٹ کی باتیں کرتے تھے اور نہ جہاز پر گھومنے پھرنے کا وہ جنون رہا تھا۔ بس وہ طالبان کی دلیری اور ایمان فروشی کی کہانیاں روز سناتے تھے۔

رفتہ رفتہ ہمیں احساس ہوا کہ وہ طالبان کے سحر میں مبتلا ہو چکے تھے۔ ان کے رشتہ دار ڈاکٹر ان طالبان کی مرہم پٹی کرتے تھے جو سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں زخمی ہو جاتے تھے اور یہ مرہم پٹی رات کو ہی ہوتی تھی، اس لئے وہ رات گئے تک کلینک پر رہتے تھے اور آستہ آہستہ سکول سے بھی غائب ہونے لگے۔

ہفتے میں ایک یا دو دن جب وہ سکول آتے تھے تو جیسے ہی ہم کرکٹ کی بات شروع کرتے، ان کے چہرے پر عجیب بے چینی نمودار ہو جاتی تھی اور جب ان سے برداشت نہیں ہو پایا تو ایک دن وہ چیخ اٹھے کہ کفر مت پھیلاؤ، یہ کرکٹ وغیرہ سب کفر ہے جو مسلمانوں کے ایمان کو خراب کرنے اور ان کو گمراہ کرنے کے لئے متعارف ہوئی ہے۔ ہم نے جواب دیا کہ بھائی کدھر گیا تیرے اندر کا یاسر حمید، جس پر وہ کہتے تھے اللہ مجھے ان تصویروں کے لئے معاف کرے، میں نے اس کی تمام تصویریں جلا دی ہیں۔ دیکھو میرے پرس میں بھی کوئی تصویر نہیں۔ آج کے بعد کوئی کرکٹ کی بات نہیں کرے گا بلکہ اس بات پر آنسو بہائے گا کہ ہمارے ایمان کتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ افغانستان میں امریکی ہماری ماؤں اور بہنوں کی عزتوں کو تار تار کررہے ہیں جب کہ ہم ادھر بے غیرتوں کی طرح کرکٹ دیکھتے ہیں۔ ہمیں ان ماؤں اور بہنوں کی کوئی پروا نہیں۔



دسویں کلاس میں وہ سکول سے مکمل طور پر غائب ہو گئے اور کئی ہفتے گزر گئے مگر ان کے گھر والوں کو کوئی سراغ نہیں ملا کہ وہ کدھر چلے گئے۔ سب کو ایک یقین ضرور تھا کہ وہ جنگ کے راستے پر نکلے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔

یہ 2009 کے جنوری یا فروری کا مہینہ تھا جب ہمارے بازار میں کچھ مسلح طالبان نے مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے اعلان کیا کہ سب لوگ مسجد میں جمع ہو جائیں۔ ہم تو سکول کے اندر قید تھے مگر چھٹی ہونے کے بعد لوگوں نے ہمیں بتایا کہ آپ کے کلاس فیلو ڈرون حملے میں شہید ہو چکے ہیں۔ ہم نے پوچھا یار کیا بات کر رہے ہو؟ کیسے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ رات کو بارش ہو رہی تھی اور وہ کیمپ کے اندر اسلحے پر پلاسٹک چڑھا رہے تھے کہ اس دوران ڈرون حملہ ہوا اور کیمپ میں سب لوگ مارے گئے اور طالبان نے ان کو ادھر ہی دفنایا کیونکہ ان کا جسم کئی حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔

میں اس دن بہت رویا تھا اور کئی دن ہماری کلاس میں ایک عجیب سی خاموشی چھائی رہتی تھی کہ ہمارا جگری یار ہم سے بچھڑ گیا۔

مصنف اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے، اس لیے 'افلاطون خان' کا فرضی نام استعمال کیا جا رہا ہے