کورونا کے نام سے بھلا کون واقف نہیں ہوگا، جیسے کہ سب کو معلوم ہے کہ پچھلے سال انہی دنوں کورونا وائرس کی وباء چین کے شہر ووہان سے دسمبر 2019 سے پھیلی تھی جس نے بہت جلد ہی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا اور بعد میں اسے عالمی ایمرجنسی اور وباء قرار دیا گیا تھا جو کہ اب تک یہ سلسلہ مزید پیچیدگیوں کے ساتھ چل رہا ہے۔SARS-CoV2کورونا وائرس کی فیملی کا پہلاوائرس ہے،جس نے عالمی وباء کی شکل اختیار کی۔ یہ ایک RNA Virus ہے۔اس کے علاوہ اس فیملی کا یہ ساتواں وائرس ہے جو کہ انسانوں کو نقصان پہنچارہا ہے۔
پوری دنیا میں سال 2020 بہت سی دشواریوں کے ساتھ گزرا، دنیا کے نقشے پر موجودہ تمام ممالک اس دور کے نشیب وفراز سے گزرے، ہر طرف ایک دہشت کی کیفیت تھی خاموشی چارسو پھیلی ہوئی تھی ہر زبان پر بس ایک ہی آواز تھی کورونا اور کورونا۔۔روزانہ کی بنیاد پر عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جیسے جیسے اس وائرس سے بچاؤ کے طریقے اور معلومات تک رسائی ملتی وہ دنیا کے سامنے رکھ دیتے، دنیا کے تمام ممالک اس کے تابع چلتے، اس کے ساتھ مختلف ادویات کے ٹرائل بھی ہوتے رہے کہ شاید کوئی دوا علامات کو قابو کرلے کبھی انٹی بائیوٹیکس کی سفارشات ہوتی رہی تو کبھی پیناڈول یا ڈیکسا میتھاسون اور آخر میں تو انٹی وائرل ادویات کے ساتھ انٹی ملیریل ادویات کونین کو بھی آزمایا گیا جس کی وجہ سے اس وائرس نے مزید پیچیدگیوں کو جنم دیا کیونکہ ان ادویات سے Gene Mutationپیدا ہوگئی ہے اور اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ وائرس اب تک اپنا(جینوم ڈیٹا) یعنی معلومات اور ساخت کو تبدیل کرچکا ہے بلکہ پوری دنیا میں وائرس اپنی نئی قسم کے ساتھ موجود ہے، جیسے سمجھنا اور کنٹرول کرنا پہلے سے زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔وباء کے شروع ہوتے ہی کچھ سائنسدانوں نے قوت مدافعت کو بہتر بنانے پر زور دیا تھا جبکہ کچھ نے ہر مریض کے لیے انفرادی دوا ء کی بات کی تھی اور اب ان حالات میں اُس بات کی تائید ہورہی ہے۔اب چونکہ کورونا وائرس کو ایک سال گزرچکا ہے، کورونا چونکہ وائرس کی ایک فیملی یعنی خاندان ہے جس میں SARS-CoVاور اسی طرح سے MERS-CoVاور اب COVID-19جیسے SARS-CoV2 بھی کہا جارہا ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پچھلی دو دہائیوں سے اس وائرس کی فیملی سے چند وبائیں پھیلی جس نے کافی نقصان کیا تھا اور کررہا ہے۔ماہرین کے مطابق جدید تحقیق اور جین کی سٹڈی سے معلوم ہوا کہ ان تینوں وائرس کے جینوم یعنی ڈیٹا میں کافی چیزیں ایک جیسی ہیں اور ان میں بہت سیعلامات بھی ایک جیسی ہیں۔بلکہ سائنسدانوں کے مطابق وہ کوشش کررہے ہیں کہ ان تینوں وباؤں میں آخر کیا رشتہ جڑا ہوا ہے اس بات کا پتا لگایا جاسکے،اس مقصد کے لیے وہ جین سٹرین Gene Strain کو پرکھ رہے ہیں۔
موجودہ وباء کے دوران بھی یہی بات زیربحث ہے ماہرین کے مطابق COVID-19اب اپنی پہلی حالت میں نہیں ہے بلکہ وہ بہت شکلیں بناچکا ہے اور مسلسل تبدیلیاں پیدا کررہا ہے جس کی وجہ سے وہ مختلف قسمیں بنا چکا ہے جو کہ پوری دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ہیں جس کا ختم کرنا نہایت ہی مشکل لگ رہا ہے اور اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ دنیا سے اس وباء کے اثرات کب تک ختم ہوسکیں گے۔
اگر ہم آج بھی دیکھیں تو مختلف ممالک میں وباء کے لہر بار بار اُٹھ رہے ہیں اور لاک ڈاوٗن اورحفاظتی اقدامات پر زور دیا جارہا ہے کیونکہ جب وائرس اپنی ساخت اور معلومات کو بدل دیتا ہے تو وہ دوبارہ سے نظر انداز ہوسکتا ہے اور اسی طرح سے مختلف ممالک سے بار بار یہ لہریں اُٹھ رہی ہیں جس نے دنیا کو مزید تشویش میں ڈال دیا ہے اور مسلسل اسے کنٹرول کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔اب اگر اسی تناظر میں ویکسین کو دیکھتے ہیں تو ماہرین کے مطابق ویکسین حتمی طور پر کارآمد نہیں ہوسکتی کیونکہ وائرس بہت جلد اپنی انفارمیشن اور ساخت بدل رہا ہے، دنیا کے مختلف ممالک اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے کورونا وائرس کی ویکسین بنائی ہوئی ہے جو کہ استعمال کروائی جارہی ہیں لیکن تاحال کوئی پتا نہیں کہ یہ ویکسین وائرس کے خلاف کس قدر موٗثر ثابت ہوسکیں گے اور جسم انسانی پر کیا نقصانات لانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
ساوٗتھ افریقہ نے بھیAstraZeneca'sکمپنی کی ویکسین استعمال کروانا بند کردی کیونکہ وہ غیر موٗثر ثابت ہورہی تھی۔پاکستان میں بھی چائنہ کی بنائی ہوئی ویکسین ہیلتھ ورکرز کو لگائی جارہی ہے جس کے بارے میں تاحال کوئی تبصرہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ موجودہ حالات میں ماہرین کے مطابق جین میوٹیشن پیداہورہیہیں جس سے مستقبل میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں اور تاحال کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ واقعی ویکسین موٗثر ثابت ہوسکے گی۔چونکہ وائرس اپنی ساخت اور معلومات بدل رہا ہے اسی وجہ سے وائرس وقفے وقفے سے وباء کی شکل احتیار کرے گا کیونکہ وائرس ساخت اور ڈیٹا کو تبدیل کرکے دوبارہ سے اثر انداز ہوجاتا ہے۔موجودہ نئی ریسرچ کے مطابق بھی ماہرین تاحال حفاظتی اقدامات پر زور دے رہے ہیں اور ابھی تک ماسک یا ڈبل ماسک کے استعمال پر زور دیا جارہا ہے دوسری وباؤں کی طرح اس میں بھی محض میوٹیشن اور مزید پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں۔اب ایسے حالات میں ہمیں متبادل سسٹم کی طرف بھی دیکھنا ہوگا،
ہمیشہ کی طرح اس وباء میں بھی ہومیوپیتھک ادویات کا بھی کافی چرچہ ہوا یہ میڈیکل سسٹم چونکہ انفرادی علاج پر یقین رکھتا ہے اور ان کے مطابق ہرمریض کی انفرادی علامات کو ترجیح دی جاتی ہیں اور آج کے دور میں سائنسدانوں نے بھی اس بات کی تائید کردی ہے۔وباء کے پھیلتے ہی (CCRH)سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان ہومیوپیتھی ہندوستان کی طرف سے مختلف مریضوں کی علامات جمع کرکے جیسے Genius Epidemicsبھی کہا جاسکتا ہے۔جس میں بہت سارے مریضوں کا ڈیٹا اکھٹا کرکے دیکھا جاتا ہے اور اس میں سے تمام مریضوں کی علامات کو دیکھ کر وباء کے کنٹرول اور حفاظت کے لیے ماہرین ہومیوپیتھی ایک دوا ء تجویز کرتے ہیں۔ ایک دواء کانام شائع کیا گیا کہ یہ دواء علامات کو کنٹرول اور پیچیدگیوں سے بچاسکتی ہے جس کا نا م تھا Ars.Album30پوری دنیا میں یہ دواء زیر بحث رہی اس کے علاوہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید چند ادویات کا ذکر بھی ساتھ چلتا رہا،ہندوستان کی آیوش منسٹری کی طرف سے گائیڈلائن بھی پبلش کی گئی بلکہ گوہ اور کیرالہ جیسی ریاست میں تو باقاعدہ ہومیوپیتھک ادویات ہسپتالوں میں استعمال کروائی گئی اور بہترین نتائج ریکارڈ کیے گئے اس کے علاوہ کیوبا بھی انہی ممالک میں شامل ہیں جس نے ہومیوپیتھک ادویات سے بہت فائدہ اُٹھایا اور بہترین نتائج پائے۔اٹلی کے ایم۔ڈی ڈاکٹرز نے بھی 50مریضوں پر ٹرائل کیے جنہیں ہومیوپیتھک ادویات دی گئی اور جس سے مریض بہتر ہونا شروع ہوگئے تھے بلکہ وہ ٹھیک ہوگئے تھے اسی طرح سے بہت ریسرچ ورک ہوا جس میں کامیابی کا تناسب بہت ہی اچھا رہا اور یہ پہلا موقع نہیں تھا جہاں پر ہومیوپیتھک ادویات کی افا دیت کا اندازہ ہو ا بلکہ اگر ہم دنیا کی تاریخ میں آئے تمام وباوٗں کو دیکھیں تو اس میں ہومیوپیتھک ادویات کے ریزلٹ تمام طریقہ علاج سے زیادہ بہتر تھے۔بہرحال اس وقت حالات پچھلے سال سے یکسر بدل گئے ہیں ہمارے لوگوں میں اب وہ تشویش نہیں رہی اور نہ ہی حفاظتی تدابیر اس طرح سے اپنائے جارہے ہیں جبکہ ہمیں احتیاظی تدابیر کو اپنانا چاہیے کیونکہ ابھی اس جنگ میں جیت باقی ہے۔
لہٰذا ہمیں متبادل سسٹم یعنی کہ ہومیوپیتھک ادویات کو بھی دیکھنا چاہیے اور کورونا جیسی علامات اگر سامنے آتی ہیں تو ضرورت کی تحت ان ادویات کا استعمال بھی کروانا چاہیے جس سے فائدہ بھی ہوسکے گا اور کسی قسم کی میوٹیشن بھی نہیں ہوسکے گی اور اس طریقے سے ہم اس وباء یعنی کہ کورونا سے جان چھڑوانے میں مدد لے سکتے ہیں کیونکہ ان ادویات کے استعمال سے وائرس کسی قسم کی میوٹیشن یا پیچیدگیاں پیدا نہیں کرسکے گا بلکہ اگر حکومت پاکستان اس پر کام کرتا ہے تو اس وائرس کا نوسوڈ بھی تیار کیا جاسکتا ہے یعنی اسی وائرس کے مریض سے یہ نوسوڈ بنایا جاسکتا ہے جس کی پروونگ کرکے کورونا وائرس کے مریضوں کے خلاف کامیابی سے استعمال کروایا جاسکتا ہے اس کے علاوہ بھی ہومیوپیتھک ادویات میں ایسی بے شمار ادویات موجود ہیں جو کہ کورونا وائرس کی پیچیدگیوں میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
وقت کی ضرورت ہے کہ ہم تمام میڈیکل سسٹم سے فائدہ اُٹھائیں کیونکہ ان حالات میں تاحال کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ حالات کب تک ٹھیک ہوسکیں گے لہٰذا تب تک متبادل طریقہ علاج سے بھی ہمیں فائدہ اُٹھانا چاہیے اور اسی طرح سے ہم ملک میں اس مرض کے خلاف کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان دنوں چونکہ موسم تبدیل ہورہا ہے اور موسمی نزلہ زکام اور بخار عام ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگ پریشان بھی ہوجاتے ہیں کہ کہیں کورونا وائرس کا اٹیک تو نہیں، ایسی صورتحال میں یعنی کہ نزلہ زکام وغیرہ میں اول تو کوشش ہونی چاہیے کہ ٹیکے اور نزلہ زکام بند کرنے والی ادویات کا استعمال نہ کیا جائے بلکہ گرم چائے،انڈے یا خود کو گرم رکھنے سے طبیعت بحال کی جائے اگر ایک ادھ دن تک طبیعت نہیں سنبھلتی تو پھر آپ ایسی حالات میں ہومیوپیتھک ادویات کا استعمال کریں اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جسم میں کسی قسم کی سپریشن نہیں ہوگی یعنی کہ بیماری جسم کے اندر نہیں دبے گی اور آپ کو مزید کسی قسم کی پیچیدگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔