پاکستان میں یوں تو ہر انتخاب کے نتائج ہمیشہ امیدوں کے برعکس ہی آتے ہیں مگر سال رواں کے انتخابات نے جو سب سے بڑا سیٹ بیک دیا وہ مذہبی جماعتوں کے لیے عوامی سطح پر نا پسندیدگی کا اظہار تھا۔ پاکستان کی تین بڑی مذہبی سیاسی جماعتیں جن میں جے یو آئی، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک شامل ہیں، ان کے ووٹ بنک کو نا صرف شدید دھچکا پہنچا ہے بلکہ ان کے قائدین بھی مکمل طور پر فلاپ ثابت ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، جے یو آئی کے امیر فضل الرحمان اور تحریک لبیک کے امیر حافظ سعد رضوی اپنی آبائی نشستیں بھی ہار گئے ہیں۔
پاکستان میں مذہبی جماعتیں شروع دن سے صرف ایک پریشر گروپ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان جماعتوں کو مخصوص حالات میں ایک ایسی سپیس فراہم کی جاتی ہے کہ وہ بڑی سیاسی جماعتوں کے ووٹ بنک کو متاثر کر سکیں جس کا فائدہ کسی تیسرے فریق کو ہو۔ مذہبی جماعتوں کی غیر مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ان کا محدود بیانیہ اور وژن ہے۔ ویسے تو پاکستان کو ایک مذہبی اور اسلامی ریاست تصور کیا جاتا ہے اور اس کا آئینی تشخص بھی اسلامی جمہوریہ ہے، اس کے قریباً 90 فیصد قوانین بھی باقاعدہ اسلام کے اصولوں پر مبنی ہیں مگر ملک میں کبھی قوم نے مذہبی سیاسی جماعتوں کو اتنے بڑے لیول پر منتخب نہیں کیا جہاں وہ اپنے بیانیے کے مطابق اسلامی نظام لا سکیں۔ یہی بیانیہ لے کر مذہبی جماعتیں ووٹ مانگتی ہیں اور عوام میں جذباتی مادہ پیدا کرتی رہی ہیں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
مذہبی جماعتوں کا ایک مدعا یہ بھی رہا ہے کہ ملک میں چونکہ اسلامی نظام نہیں ہے اس لیے حالات بہتر نہیں ہو رہے جبکہ دوسری جانب پروگریسو اور سیکولر ذہنیت کے لوگ پاکستان میں سیکولر نظام لانے کی بات کرتے ہیں۔ مگر افسوس کہ ملک میں دونوں نظام نہیں رائج ہو سکے۔ سیکولر نظام تو سرے سے کبھی پروان چڑھنے ہی نہیں دیا گیا اور ایسے افراد کو اکثر مذہب مخالف اور ریاست مخالف کہہ کر بین کیا جاتا رہا ہے۔ دوسری جانب ریاست کا مذہبی لحاظ سے تشخص اسلامی ضرور ہے مگر مذہبی جماعتیں ہمیشہ غیر جمہوری قوتوں کی آلہ کار رہی ہیں۔
بطور مسلمان ہم یہ تسلیم کر سکتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے مگر عرف عام اور دنیاوی رائج اصولوں میں اسے ایک جانبدار اور محدود وژن سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام نے کبھی مذہبی جماعتوں کو بڑی سطح پر پذیرائی نہیں دی، بلکہ جو کچھ فیصد ووٹ ان کو پڑتے تھے اس انتخاب میں وہ بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔
کسی بھی نظام کے مقابلے میں مخالف اور متضاد بیانیہ بنانے کے لئے پہلے اس نظام کو مکمل طور پر رائج کرنا ضروری ہوتا ہے مگر پاکستان میں سیکولر اور مذہبی دونوں طبقے آپس میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہم دوسرے نظام سے بہتر ہیں، جبکہ پاکستان میں سیکولر نظام کبھی آیا اور نا ہی کبھی مکمل اسلامی ریاست قائم ہو سکی۔
پاکستان کی نوجوان نسل اب پرانے نظام اور پرانے بیانیوں سے تنگ آ چکی ہے۔ 2018 کی نسبت 2024 کے انتخابات میں ووٹرز ٹرن آؤٹ بھی کم رہا ہے۔ بیش تر نوجوان ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں جو اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ملک کا موجودہ تشخص اور نظام عوام کو پسند نہیں، وہ آزاد اور روشن خیال معاشروں میں ہجرت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ملک میں موجود طبقے نے ووٹ کے ذریعے بھی یہ بات واضح کر دی ہے کہ مذہبی جماعتوں اور ان کے وژن کی سیاست میں اب کوئی جگہ نہیں بچی۔ البتہ مذہبی جماعتیں معاشرے کے سدھار کا کام کریں تو ان کو عوامی مقبولیت ضرور ملتی ہے، چاہے وہ انسانی ویلفیئر کا کام ہو، مذہبی تبلیغ ہو یا پھر معاشرے کی بہتری پر مبنی تقاریر ہوں۔ لہٰذا مذہبی جماعتوں کو اب اس پہلو پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ وہ اسلام کی تبلیغ کر کے معاشرے میں اپنا وقار بڑھانا چاہتی ہیں یا سیاست کی بھیڑ چال میں اپنے آپ کو مزید ایکسپوژ کرنے پر کمربستہ رہتی ہیں۔