بھوپال کے رکن پارلیمنٹ سادھوی پرگیہ کے ذریعہ اذان کا معاملہ ابھی سرد بھی نہیں پڑا تھا کہ انڈیا کے شہر اندور کے وکیلوں نے صوتی آلودگی کے نام پر لاؤڈ سپیکر کے ذریعے مساجد سے ہونے والی اذان کو بند کرنے کا مطالبہ شروع کر کے مدھیہ پردیش میں ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے۔
اندور کے وکیلوں نے اپنے مطالبات پر عملدرآمد کیلئے مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ کو میمورنڈم بھیج کر اس پر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، وہیں مسلم تنظیموں نے اس کو مذہبی منافرت سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
مدھیہ پردیش جمیعت علما کے صدر حاجی محمد ہارون کہتے ہیں کہ لاؤڈ سپیکر کا استعمال صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سبھی مذاہب کی عبادت گاہوں میں ہوتا ہے۔ جہاں تک صوتی آلودگی کا تعلق ہے تو یہ صوتی آلودگی صرف مذہبی عبادت گاہوں میں استعمال ہونے والے لاؤڈ سپیکر سے نہیں بلکہ سیاسی، سماجی تقریبات، شادیوں میں بجنے والے بینڈ باجے اور گاڑیوں سے بھی پیدا ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صبح کے وقت مساجد سے رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ نیک لوگ صبح کی اذان اور بھجن کیرتن سے اٹھتے ہیں اور اپنے مالک کی حمد و ثنا میں مصروف ہوتے ہیں۔
حاجی محمد ہارون نے کہا کہ وہ لوگ جو صبح کے وقت اٹھتے نہیں، اپنی مذہب کی عبادت گاہوں میں جا کر عبادت میں شامل نہیں ہوتے اور ملک کے لئے بوجھ بنے ہوئے ہیں، انہیں ان سے تکلیف ہوتی ہے اور ایسے لوگوں کو بیدار کرنے کے لئے لاؤڈ سپیکر کا استعمال ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم تو حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس پر قومی سطح پر قانون بنائے تاکہ مذاہب کے لوگوں پر اس کا یکساں طور پر اطلاق ہو سکے۔ صرف مساجد کے لاؤڈ سپیکر پر پابندی کی بات کرنا کسی بھی صورت مناسب نہیں ہے۔
وہیں مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ ڈاکٹر نروتم مشرا کہتے ہیں کہ انہیں اس سلسلہ میں میمورنڈم دیاگیا ہے۔ اس کو جانچ کے لئے بھیج دیا گیا ہے۔ جانچ رپورٹ آنے کے بعد اس پر کوئی بات کی جا سکتی ہے۔