آج کل کوکا پنڈت کی شہرہ آفاق تصنیف 'کوک شاستر' زیرِ مطالعہ ہے۔ اس میں مردوں کی چار اقسام درج ہیں؛
فرسٹ کلاس، اول درجے کا باالفاظ دیگر ملک یا چودھری ٹائپ ہے ششک۔ سیکنڈ کلاس ہے راجس۔ تھرڈ کلاس مرد بھرگو کہلاتا ہے اور آخری درجے کا تامس۔
لگتا ہے پنڈت جی نے بھرگو مرد اپنے پاٹے خان کو دیکھ کر تخلیق کیا۔ ویسے کرکٹ میں بھی اپنا پاٹے خان تھرڈ کلاس باؤلر تھا۔ پہلا نمبر جیف تھامسن (آسٹریلیا) اور دوسرا مائیکل ہولڈنگ (ویسٹ انڈیز) کا تھا۔
'بھرگو مرد نہ بہت حسین، نہ بہت بدصورت ہوتا ہے۔ جلد باز اور بے صبرا۔ پرلے درجے کا خود پرست، حد سے زیادہ مطلب پرست، والدین اور حاکموں کی بھی پروا نہ کرنے والا۔ عورتوں سے بدظن رہنے والا مگر انہیں غلام رکھنے کا خواہش مند۔ عورتیں اس قسم کے مرد کے ساتھ چنداں خوش نہیں رہتیں۔ اوروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت۔ آپ تو شراب اور برے کاموں کا دلدادہ مگر دوسروں پر نکتہ چینی کرنے والا۔ زود رنج اور وعدوں سے منحرف ہو جانے والا۔ دوسروں کے احسانات اور نیکیوں کو بھلا دینے والا اور شہوت پرست۔'
آگے پنڈت جی بہت دلچسپ بات لکھتے ہیں:
'انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے۔ مگر یہ امر ازحد افسوس ناک ہے کہ انسان مباشرت کے معاملے میں حیوانات سے بھی گیا گزرا ہے۔ وہ اندھا دھند کثرت جماع کا عادی ہو کر اپنے ویرج (نطفہ) کو جو دراصل ایک بیش بہا جوہر ہے، فضول ضائع کر کے اپنی صحت کی تباہی کا باعث خود آپ بنتا ہے۔ دیکھیے حیوان اس معاملے میں کتنے محتاط ہیں۔ وہ انسانوں کی طرح ہر روز اس فعل کے شوقین نہیں۔'
جب تک کوک شاستر نہیں پڑھی تھی ہم بھی عمومی تصور کا شکار تھے کہ یہ کوئی کاما سوترا ٹائپ فلم کا سکرپٹ ہو گا۔ یا کوئی پورن سے متعلق فکشن ہو گی۔ مگر اس میں تو فلسفہ حیات بھی ہے۔
ریڈیو ہمارے بچپن میں ایک زبردست انٹرٹینمنٹ تھی۔ ہم نے تو ریڈیو کے ڈارمے بھی ایسے ہی انجوائے کئے جیسے فلم شعلے۔ صوتی اثرات سے وہ سب کچھ پیدا کر دیا جاتا تھا جو فلم میں ہوتا تھا۔ پھر ٹی وی آ گیا۔ اس کے بعد رنگین ٹی وی آ گیا۔ پھر لائن لگ گئی۔ وی سی آر، ڈش انٹینا، کیبل، پرائیویٹ ٹی وی چینلز اور عصر حاضر میں انٹرنیٹ۔ لیکن صاحب دہائیوں قبل ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک دن پرانا دور پھر نیا ہو کر دوبارہ آئے گا۔ اس ضمن میں ڈبل بریسٹ سوٹ کی مثال دی گئی کہ دیکھیے یہ پرانا فیشن اب زندہ ہو رہا ہے۔ اب سنا ہے کہ بیل باٹم بھی آ چکا ہے۔ کھدر بطور اشرافیہ کے فیشن کے طور پر زندہ ہو رہا ہے۔ کوک سٹوڈیو کو اس بات کا کریڈٹ دیا جا رہا ہے کہ دیکھیں پرانے گانے زندہ کر دیے ہیں (جسے ہم ہرگز نہیں مانتے)۔ نئی نسل کو کہاں پتہ تھا 'آج جانے کی ضد نہ کرو' کا۔ لیکن یہ گانے اصلی صورت میں نہیں پیش کیے گئے، ان کی مسخ لاشیں ہیں جو قبر کھود کر نکالی گئی ہیں۔ آج ہم بتاتے ہیں کہ ریڈیو کیسے دوبارہ زندہ ہو چکا ہے۔ اور اب ریٹنگ میں ٹی وی تو چھوڑ، فلموں کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ اور اس بات کا کریڈٹ اپنے پاٹے خان صاحب کو ہی جاتا ہے۔
ان کی چند ' صوتی فلمیں' مارکیٹ میں آئی ہیں۔ کوئی بیک گراؤنڈ میوزک نہیں ہے۔ کوک سٹوڈیو میوزک والی کنفیوژن fusion music کی شکل میں نہیں ہے۔ 100 فیصد کلاسیکل اور اصلی شکل میں ہے۔ یعنی صرف صدا کاری۔
ہر قسم کا ایکسپریشن، اینگل، پوسچر، سٹائل۔۔ مشرقی ہو یا مغربی۔۔ صرف اور صرف آواز کے بل بوتے پر پیدا کیا گیا ہے۔ مزے کے بات تو یہ ہے کہ بغیر سکرپٹ کے ہے یعنی نیچرل، گاڈ گفٹیڈ اور فی البدیہہ۔ کوئی ریہرسل نہیں۔ اس کی کامیابی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب بھارت اس کی چربہ سازی میں مصروف ہے۔ کہاں وہ وقت تھا کہ بھارت ہالی ووڈ اور ہم بھارتی فلموں کا چربہ تیار کرتے تھے۔ خان صاحب نے سب ریکارڈ توڑ ڈالے۔
ان فلموں میں وومین امپاورمنٹ کا اتنا خیال رکھا گیا ہے کہ ساری کی ساری پاور وومن کے طرف منتقل کر دی گئی ہے۔ جو مرد عورت کو پیر کی جوتی سمجھتا تھا، اب وہ اس کی ایک کک بولے تو لات کی مار ہے۔
فلم میں ہمیں غالب کے فلسفے کی سچائی کا بھی عندیہ ملتا ہے۔ مثلاً بہت درد کا ذکر کیا جا رہا ہے ان فلموں میں اور اتنی بار کہ ایک سٹیج پر یہ درد 'دوا' بن جاتا ہے۔ 'درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا'۔
آج کل کے بچوں کو کیا معلوم کہ لینڈ لائن کیا ہوتی ہے۔ سب کے ہاتھوں میں سمارٹ فون ہوتے ہیں۔ تو پرانا کلچر زندہ کیا گیا ہے۔ ایک متروک لفظ کو نئی زندگی عطا ہوئی اور وہ ہے 'لینڈ لائن'۔ لگے ہاتھ اردو زبان کو ایک نیا محاورہ بھی ملا۔ یاد رہے کہ کم از کم ایک صدی لگ جاتی ہے ایک محاورے کو زبان زد عام ہونے میں۔ تو وہ محاورہ یوں ہے کہ اگر شکار جال میں نہ آ رہا ہو تو سبز کے بجائے کالا باغ دکھائیے!
طبلہ ہمارا استاد ہے۔ اس میں انگلی کا درست استعمال بہت اہم ہے۔ خاص طور پر انڈکس فنگر۔ بولے تو انگشت شہادت۔ طبلہ ایک سُر کا ساز ہے اور وہ سُر بلانے کے لئے صرف ایک ہی انگلی استعمال ہوتی ہے۔ اسے طبلے میں گھس جانا چاہئیے ورنہ سُر نہیں نکلے گا۔ اس مشق میں مجھے سالوں لگ گئے۔ یہ صوتی فلم دیکھ کر احساس ہوا کہ طبلے کے علاوہ بھی کچھ ایسے ساز ہوتے ہیں جن میں سُر بلانے کے لئے انگلی کا استعمال ضروری ہے۔ طبلے کی کھال پر ہم پاؤڈر لگائے بغیر اسے درست طریقے سے بجا نہیں سکتے۔ پاؤڈر کا مقصد طبلے کے کھردرے پن کو دور کرنا۔ اسے نرم کرنا تاکہ ہاتھ روانی سے چلے۔ خان صاحب کی صوتی فلمیں دیکھ کر پتہ چلا کہ پاؤڈر یا لوشن یا ویسلین وغیرہ سریلے پن کے لئے ناگزیر۔
طبلے کا جب دماغ خراب ہوتا ہے تو سُر سے اتر جاتا ہے یا چڑھ جاتا ہے۔ اسے دوبارہ راہ راست پر لانے کے لئے ٹھوکنا پڑتا ہے ہتھوڑی سے۔ ٹُھک ٹُھک کرنے سے دوبارہ سُر پر آ جاتا ہے۔ ذاکر بھائی کی وڈیوز دیکھ لیں۔ کئی بار طبلہ سُر سے دوران پرفارمنس اترے گا اور ذاکر بھائی اسے punish کریں گے اپنی ہتھوڑی سے۔ تو حضور ان صوتی فلموں میں punishment پر ایک سیر حاصل گفتگو ہے جس کی بدولت کلاسیکل موسیقی بھی زندہ ہو رہی ہے۔ دیکھیے صرف دو تین صوتی فلموں نے اتنا کچھ متروک خزانہ زندہ کر دیا۔ اب اور آئیں تو پتہ چلے کہ مزید کیا کچھ زندہ ہونے چلا ہے۔
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔