میرے والد مرحوم کے بہترین دوستوں میں سے ایک آغا خالد زیبر۔ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس سے چار برس پہلے بطور ڈائریکٹر پرفارمنگ آرٹس ریٹائر ہوئے۔ کتھک رقص میں مادام آزوری کے شاگرد۔
ایک دن باتوں باتوں میں جنرل ضیاء کا موسیقی کے حوالے سے تذکرہ چھڑ گیا۔ ہمارا تصور ضیاء کے بارے میں یہ ہے کہ پرفارمنگ آرٹس کے لئے وہ مغل بادشاہ اورنگزیب تھا۔ تو آغا صاحب نے کچھ باتیں بتائیں جنہیں پڑھنے والے دلچسپ پائیں گے۔
ضیاء نے جمہوریت پر شب خون مارتے ہی فنکاروں کے لیے چار کروڑ روپے فکس ڈیپازٹ کرائے جو آج کئی کروڑ ہو چکے ہیں۔ ادارہ ثقافت ان ہی پیسوں سے فنکاروں کی مدد آج تک کر رہا ہے۔ اس رقم پر مناسب منافع لگ جاتا ہے جسے مستحق فنکاروں کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کیا جاتا ہے۔
ضیاء کن رسیا تھا۔ سب ہی جانتے ہیں طبیعت میں منافقت، چاپلوسی، اور نمک حرامی کی طرح عاجزی بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ایوان صدر میں سب آرٹسٹوں سے ذاتی طور پر ملتا، ایسے جیسے ان کی ہی برادری سے ہو۔ اپنے جونیجو صاحب تو پروگرام ختم ہوتے ہی گھر جانے کی کرتے تو ضیاء انہیں روک کر کہتا کہ سائیں ان سے ملا کریں۔ یہ درویش فقیر لوگ ہیں۔ چاروناچار جونیجو صاحب کو ملنا ہی پڑتا۔ شاید ضیاء نے اسی کارنے جونیجو کو چلتا کیا کہ مراثیوں کی عزت نہیں کرتا تھا۔
ایوان صدر میں موسیقاروں کو خاص طریقے سے ذلیل کیا جاتا ہے۔ مہمان کھانا کھا رہے ہوتے ہیں۔ یہ اپنے فن کا مظاہرہ بیک گراؤنڈ میں کر رہے ہوتے ہیں۔ میز پر موسیقی کا مینو رکھا ہوتا ہے کہ کون آ رہا ہے اور کیا گا بجا رہا ہے۔ کسی خاں صاحب نے زبردست مالکونس گایا۔ ضیاٰء خوش ہوا۔ آخر میں ملتے ہوئے بولا کہ خان صاحب آپ نے آج کمال کر دیا۔ درباری گانا تھا اور گا دیا مالکونس۔ لیکن جو گایا خوب گایا۔
ایک بانسری نواز تصدق حسین بہت پسند تھا ضیاء کو۔ وہ بیچارہ ریل گاڑی کے نیچے آ کر مر گیا۔ اس کے جانے کا بہت دکھ ہوا ضیاء کو۔ سب کو بلایا۔ ایک سٹامپ ڈرافٹ کروایا۔ دس مرلے کا پلاٹ خریدنے کا حکم تھا۔ نقشہ ضیاء نے بقلم خود پاس کرنا تھا۔ اس کی بچیوں کی شادی کے لئے فنڈ قائم کیا۔ دو منزلہ مکان بھی بنا۔ قصہ مختصر اگر وہ زندہ رہتا تو بھوکا ہی مرتا۔ اچھا ہوا جلد پرلوک سدھار گیا۔ اور درست وقت پر۔ موت نے خاندان کو خود کفیل کر دیا۔
تاری خان کا طبلہ بہت پسند تھا ضیاء کو۔ کرکٹ ٹیم کی کسی فتح پر تاری کو بلوایا۔ حسب معمول تاری نے دھواں دھار طبلہ بجایا تو ضیاء بولا کہ بھئی لگتا ہے فاتح کرکٹ ٹیم نہیں، تم ہو!
یہ باتیں اچھی لگیں آغا صاحب کی زبانی۔ نہ جانے کیوں ضیاء نے ناہید صدیقی کے فن کی قدر نہ کی۔ اس کے رقص پر پابندی لگا دی اور اسے برطانیہ جانا پڑا۔
دو دہائی قبل مون ڈائجسٹ کے بانی و مدیر ادیب جاودانی صاحب سے ملاقات ہوئی تو بولے، میری ایک شاندار کوٹھی تھی مری کے راستے پر جو ضیاء کو بھا گئی۔ پیغام بھیجا کہ خریدنا چاہتا ہوں۔ جاودانی صاحب نے صاف انکار کر دیا۔ ضیاء تو انکار سننے کا عادی نہ تھا۔ خطرناک نتائج کی تڑی لگائی گئی۔ جاودانی صاحب اپنے پیر کے قدموں میں کہ اب کیا ہووے گا۔ پیر صاحب نے کہا بے فکر ہو کے سو جا۔ تیری کوٹھی اور تو رہیں گے، یہ جاوے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ کچھ دنوں بعد ضیاء ہوا میں تحلیل ہو گیا۔
جب تک ضیاء زندہ تھا تو اپنے جنرل اسلم بیگ بولے نہیں۔ جب مر گیا تو انہیں بھی خیال آ گیا کہ ضیاء کی منافقت کا پردہ (تھوڑا بہت) چاک کر ہی دیا جاوے۔ ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ جب بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تو سعودی عرب نے ضیاء کو ریاض طلب کیا۔ خانہ کعبہ میں بادشاہ خالد، یاسر عرفات اور ضیاء۔ وعدہ کیا اللہ کو حاظر ناظر جان کر کے بھٹو کو پھانسی نہیں دے گا مگر مکر گیا۔ بقول بیگ صاحب یہ ضیاء کا ایک گناہ کبیرہ تھا۔
اب تو اپنے بیگ صاحب بھی کچھ ایسی حالت میں ہیں کہ آج نہیں تو کل یقیناً ضیاء کے پاس۔ تو مرنے سے پہلے یہ تو بتا جائیں کہ ان کا کتنا ہاتھ تھا طیارے کے حادثے میں؟ تھوڑا بہت بھی نہیں تھا کیا؟
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔