جمعرات کو اسلام آباد میں اقتصادی مالی سروے 2019-20 پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کے مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ کرونا کی وبا سے قبل معاشی ترقی کی شرح تین فیصد سے بڑھنے کی امید تھی تاہم مالی سال 20-2019 میں جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 0.4 فیصد رہی ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں یہ تسلیم کیا کہ حکومت جتنے بھی دعوے کرتی آ رہی تھی وہ غلط ثابت ہوئے ہیں۔ اور وہ خود بھی اس بات پر حیران نظر آئے کہ اعداد و شمار میں اتنا فرق کہاں سے آ گیا۔
لیکن ایک عام شخص اس بات سے کوئی سروکار نہیں رکھتا کہ ایک سوٹڈ بوٹڈ مشیر خزانہ کی جی ڈی پی کے اعداد و شمار کیا ہیں اور ان میں کیا فرق ہے اور یہ بھی کہ اس کو اس پر حیرانی ہے تو اس کا کیا مطلب ہے۔ البتہ اس کو اس بات سے سروکار ہے کہ اس کا چولہا کیسے جلے گا؟ اسے کاروبار نصیب ہوگا؟ اسے نوکری ملے گی؟ وہ گھر کا کرایہ دے سکے گا؟ یا بچوں کو پڑھا سکے گا۔ صحت کی سہولیات اپنے اہل خانہ کو فراہم کرنے کے حوالے سے اس کی جیب کا اس کو کیا جواب ہوگا؟ اس حوالے سے نیا دور نے مشیر خزانہ کے بیانات اور ایک عام آدمی کے سوالات کے ان جوابات کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
جی ڈی پی کیا ہوتی ہے؟
کسی ملک کی مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی کا حساب مینوفیکچرنگ، سروسز اور زراعت کے شعبوں کی مجموعی پیداوار کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر جی ڈی پی کے تعین کے لئے ان تمام شعبوں کی پیداوار کی مجموعی اوسط نکالی جاتی ہے۔
کیا اس سے قبل پاکستان کی شرح نمو کبھی منفی رہی ہے؟
ستر سال میں یہ پہلا موقع ہے جب ملک کی مجموعی قومی پیداوار منفی رہی۔ آخری بار قیامِ پاکستان کے چند سالوں بعد مالی سال 1951-52 میں ملک کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح منفی ایک فیصد رہی تھی۔ حکومتی بیانیے کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک کی معاشی سرگرمیاں رکیں تو اس کا براہ راست اثر ان تینوں شعبوں میں کام کرنے والے افراد اور اداروں پر ہوا جس کا نتیجہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے منفی ہونے کی صورت میں بر آمد ہوا۔ اور گذشتہ مالی سال میں مجموعی قومی پیداوار کی شرح منفی 0.38 فیصد رہی۔
کرونا وائرس تو چار ماہ کا معاملہ ہے: اسحاق ڈار
تاہم اپوزیشن رہنما اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ سابق وزیر خزانہ اور ن لیگ کے رہنما اسحاق ڈار نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام خبر سے آگے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مطابق کرونا تو پچھلے چار ماہ کا معاملہ ہے معیشت کی تباہی پہلے ہی ہو چکی۔ معاشی بڑھوتری کے بارے میں حکومت گذشتہ برس یعنی 2018-19 میں بھی جھوٹ بولتے ہوئے تین فیصد سے زیادہ کی گروتھ دکھاتی رہی اور چند ماہ بعد کہہ دیا کہ شرح نمو 1.9 فیصد تھی جو کہ ان کی نظر میں اعداد و شمار کا ایک سنگین غلط استعمال ہے اور کسی اور ملک میں ایسا ہوتا تو ذمہ داروں کا تعین کر کے اس پر کارروائی کی جاتی۔
معیشت کی شرح نمو منفی ہونے سے عام آدمی پر کیا فرق پڑے گا؟
اب جب کہ معلوم ہے کہ معیشت کی بڑھوتری منفی رہے گی تو اس کی تشریح ایک عام آدمی کے لئے بھیانک ہونے والی ہے۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں کمی کا براہ راست اثر ایک عام فرد پر پڑتا ہے کیونکہ مجموعی قومی پیداوار میں کمی اس وقت دیکھنے میں آتی ہے جب پاکستان کے شعبہ زراعت، خدمات اور صنعت میں کام کی رفتار سست روی کا شکار ہوتی ہے یا ان میں کام بند ہو جاتا ہے۔
تمام تر مشکلات کے باوجود زراعت کے شعبے میں ترقی کیسے ہوئی؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ میں ماہر معیشت محمد سہیل نے کہا ہے کہ قومی پیداوار میں منفی رجحان کا مطلب ہے کہ اس سے عام آدمی کی اوسط آمدنی گھٹ جاتی ہے۔ جب پیداواری شعبے میں کام نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر دیا جائے گا یا پھر ان کی تنخواہوں میں کٹوتی کر دی جائے گی جس سے ملک میں فی کس آمدنی میں کمی واقع ہوگی۔
محمد سہیل نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیداواری شعبے میں کام تقریباً بند ہو گیا ہے چاہے وہ سیمنٹ ہو، کاریں ہوں یا پھر کپڑے، ہر چیز کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے، یا پھر سرے سے کوئی پیداوار ہوئی ہی نہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پیداوار کے شعبے میں شرح نمو منفی 2.64 فیصد رہے گی۔
ان کے مطابق خدمات کا شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا اور یہی وجہ ہے کہ اس شعبے میں شرحِ نمو 0.5 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ زراعت کے شعبے کے شرحِ نمو 2.67 فیصد رہنے کے بارے میں محمد سہیل نے کہا کہ لاک ڈاؤن شہروں کی بہ نسبت دیہاتوں میں بہت کم تھا یا پھر سرے سے تھا ہی نہیں اس لئے زرعی معیشت میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بھی ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے منفی ہونے اور اس کے عام آدمی پر اثرات کے سلسلے میں کہا کہ جی ڈی پی کی شرح منفی ہو جانے سے بیروزگاری بڑھے گی اور غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔
’قبر حکومت نے خود کھودی؛ کرونا وائرس محض گورکن ہے‘
نیا دور سے بات کرتے ہوئے تعمیرات کے شعبے سے وابستہ لاہور چیمبر آف کامرس کے ممبر اور کاورباری شخصیت اخلاق باجوہ کا کہنا تھا کہ جب شرح نمو گر جائے تو اس کا ایک اثر بد ترین ہوتا ہے اور یہ ڈامینو ایفکٹ پیدا کرتا ہے۔ یہ اثر ہے بے روزگاری۔ ان کا کہنا تھا کہ بے روزگاری گری ہوئی شرح نمو کی علامت ہے۔ جس وقت بے روزگاری ہوگی، قوت خرید کم ہوگی، جس سے کساد بازاری پیدا ہوگی اور مزید تباہی آئے گی۔ ریاست کے قرضے بڑھیں گے، بھوک و افلاس سے اٹے ہوئے معاشرے میں خود کشیاں اور جرائم بڑھیں گے۔ اور شہری زندگیاں سب سے زیادہ متاثر ہوں گی جن کے سیاسی مضمرات ہوں گے۔ پاکستان کے لئے سخت ترین وقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ گریٹ ڈپریشن کو پڑھیے۔ انہیں ڈر ہے کہ پاکستان اپنے گریٹ ڈپریشن میں دھنس چکا ہے۔ وہ بھی اسحاق ڈار کی بات سے متفق نظر آئے اور کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بدترین معاشی پالیسوں کے ساتھ معیشت کو قتل کیا بلکہ آئی ایم ایف پلان کے چکر میں قبر کھود لی تھی۔ کرونا تو بس وہ گورکن ہے جس نے معیشت کا مردہ اس قبر میں ڈال کر الزام اپنے سر لے لیا ہے۔
مختصر یہ کہ صورتحال بالکل بھی حوصلہ افزا نہیں ہے اور موجودہ بجٹ کے بعد ماہرین کے مطابق پاکستان کی معاشی سکت اس قابل نہیں کہ وہ ملک کا نظام زیادہ دیر گھسیٹ سکے۔