Get Alerts

تنخواہ میں 20 فیصد اضافہ، کم سے کم ماہانہ اجرت 25 ہزار روپے تجویز:سندھ کا بجٹ پیش کر دیا گیا

تنخواہ میں 20 فیصد اضافہ، کم سے کم ماہانہ اجرت 25 ہزار روپے تجویز:سندھ کا بجٹ پیش کر دیا گیا
حکومت سندھ نے مالی سال 2021-22 کا 1477.903 ارب روپے حجم کا بجٹ پیش کردیا، جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ اور کم از کم اجرت 25 ہزار کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

سندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر آغا سراج درانی کی زیر صدارت ہوا جہاں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کردیا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ٓئندہ مالی سال 22- 2021 کے لیے صوبے کا کل بجٹ 1477.903 ارب روپے ہے اوریہ خسارے کا بجٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی بجٹ میں 19.1 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ خسارے کا تخمینہ 25.738 ارب روپے لگایا گیا۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال 22-2021 کے لیے صوبے کی اپنی وصولیاں 329.319 ارب روپے متوقع ہیں اور متواتر اخراجات 1089.372 ارب روپے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال 22-2021 میں صوبے کے ترقیاتی اخراجات 329.033 ارب روپے متوقع ہیں اور یہ ترقیاتی اخراجات میں 41.3 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ آئندہ مالی سال میں صوبائی اے ڈی پی کے لیے 222.500 ارب روپے مختص کیے گئے اور صوبائی اے ڈی پی میں 43.5 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور ضلع اے ڈی پی کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو 100 فیصد اضافہ ہے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور مراعات:


مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بنیادی تنخواہ کا 20 فیصد اضافے کی تجویز رکھتے ہیں، حکومت کی کارکردگی اس کے ملازمین کی کارکردگی سے تعلق رکھتی ہے اور حکومت سندھ ہر ملازم کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزدور طبقے کی فلاح و بہبود کو مد نظر رکھتے ہوئے مزدور کی کم از کم اجرت 17500روپے سے بڑھا کر 25000 روپے ماہانہ کرنے کی تجویز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کل تنخواہ اور کم سے کم تنخواہ یعنی 25000 روپے کے فرق کو کم کرنے کے لیے حکومت سندھ کے گریڈ ایک سے 5 تک کے ملازمین کے لیے ایک پرسنل الاؤنس کی بھی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے مالی سال میں حکومت سندھ کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 10فیصد اضافہ تجویز کیا جاتا ہے۔

تعلیم:


وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ قوم کی زندگی میں تعلیم سب سے زیادہ اہم اور بنیادی عنصر ہے، حکومت سندھ سب کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے نئے مالی سال کے لیے زیادہ تر وسائل تعلیم کی مد میں مختص کیے ہیں اور موجودہ مالی وسائل میں 13.5 فیصد کا اضافہ دیکھا جاسکتا ہے۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم نے تعلیم کے لیے 244.5 ارب روپے سے بڑھا کر277.5 ارب روپے تجویز کیا ہے جبکہ گزشتہ مالی سال تعلیم کے لیے 21.1 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسکول ایجوکیشن، کالج ایجوکیشن، یونیورسٹی، خصوصی افراد کو بااختیار بنانے اور صلاحیتوں کی ترقی پر مشتمل تھے۔

میڈیکل ایجوکیشن:


وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ صحت عامہ کی خدمات کو میڈیکل ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ ہم آہنگ رکھنا ایک آزمائش سے کم نہیں بہترین انسانی وسائل کو بروئے کار لانا آسان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں میڈیکل ایجوکیشن کی مد میں 45 فیصد اضافہ کے ساتھ اس کی رقم کو 2.846 ارب روپے بڑھایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 6.294 ارب روپے کی رقم بڑھا کر نئے مالی سال کے لیے 9.141 ارب روپے کردی گئی ہے اور 691 نئی اسامیاں تجویز کی گئی ہیں جن کا مالی تخمینہ 509.790 ارب روپے ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے مالی سال کے لیے میڈیکل ایجوکیشن کا سالانہ ترقیاتی پروگرام 1.15 بلین روپے ہے۔

کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ:


مراد علی شاہ نے کہا کہ نئے مالی سال 22-2021 کے لیے کالج ایجوکیشن کا بجٹ 11.8 فیصد اضافے کے ساتھ 22.8 ارب روپے کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے مالی سال میں 43 جاری اسکیموں اور 64 نئی اسکیموں کے لیے اے ڈی پی میں 4 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

ان کا کہنا تھا نئے مالی سال کے لیے صوبے میں 5 نئے پبلک کالج منظور کئے گئے ہیں، 120 ارب روپے سندھی ادبی بورڈ جامشورو کے لیے مختص کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے سرکاری ملازمین جو رواں مالی سال کے دوران انتقال کرگئے، اُن کے لواحقین کی مالی امداد کے لیے 46.20 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 17نئے ڈگری کالج حیدرآباد، جامشورو، سکھر، شکارپور، جیکب آباد، سانگھڑ، عمر کوٹ، کورنگی، ملیر اور کراچی غربی میں قائم کیے جائیں گے۔

اسکول ایجوکیشن:


مراد علی نے کہا کہ نئے مالی سال میں محکمہ اسکول ایجوکیشن اورخواندگی کے لیے 222.102 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ اسکول تعلیم اورخواندگی کی 117 جاری اسکیموں اور 186 نئی اسکیموں کے لیے 14 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

یونیورسٹیز اور بورڈز:


وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ رواں مالی سال میں سرکاری شعبے میں یونیورسٹیوں کی گرانٹ 11.07 ارب روپے تھی لیکن نئے مالی سال میں گرانٹ کا حجم بڑھا کر 20فیصد اضافے کے ساتھ 13.314 ارب روپے کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نویں اور بارہویں جماعتوں میں رجسٹریشن، انرولمنٹ اور سالانہ امتحانی فیس کیلئے 2 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے بورڈ ز میں میٹرک اور انٹر میڈیٹ میں A-1گریڈ حاصل کرنے والے طالب علموں کو اسکالر شپ کے لیے 1.2 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئے مالی سال میں سندھ ہائرایجوکیشن کمیشن کے لیے 416.516 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔

صحت کا شعبہ:


وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ کووڈ۔ 19کی وبا سے جہاں ایک طرف پوری دنیا کی صحت کے نظام کو متاثر کیا اور اس وبا کی وجہ سے صحت کی ضروری سہولیات کی متواتر فراہمی کو یقینی بنانا ایک چیلنج بنا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں پورے صوبے سندھ میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت اس وبا کا مقابلہ کامیابی سے کیا گیا، اس دوران صحت کی دیگر سہولیات کی فراہمی کو بھی یقینی بنایاگیا۔

انہوں نے کہا کہ صحت کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کئی معاہدوں کی معیاد تکمیل کے قریب ہے اور نئے سال میں صحت کی فراہمی کے ایسے مزید معاہدے کیے جائیں گے۔

زراعت اور آبپاشی:


وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ زراعت کا شعبہ ہماری معیشت کا سب سے زیادہ مددگار شعبہ ہے اور ہماری آبادی کا 60 فیصد سے زائد انحصار زراعت کے شعبے پر ہی ہے اور حکومت سندھ نے زراعت کے شعبے میں ممکنہ حد تک بہتری لانے کا مصمم ارادہ کر رکھا ہے کیونکہ یہ شعبہ قومی پیداوار میں 15سے 17فیصد گندم، 33سے 45 فیصد چاول اور 25 فیصد گنے کی کاشت فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگلے مالی سال کے لیے زراعت کے شعبے کے لیے مختص بجٹ کو 14.8ارب روپے سے بڑھا کر 15.26 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے، موجودہ مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں زراعت کے شعبے کے لیے 2.28 ارب روپے رکھے گئے تھے جبکہ مالی سال 2021-22کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

پانی کی دستیابی کے لیے جامع نظام:


مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ حکومت نے پانی کی دستیابی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ا یک جامع منصوبہ سازی کی ہے، اجتماعی منصوبہ سازی میں صوبے میں قائم بیراجوں کو پختہ کرنے کے لیے سرمایہ کاری کرنا، ترسیل کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے صوبے کے نہری نظام کے انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے لیے سرمایہ کاری، آن فارم واٹر مینجمنٹ اور پانی کی پیداوار میں بہتری لانا شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ اس بات سے پوری طرح آگاہ ہے کہ پانی اور زراعت کے مابین باہمی ربط ہے لہٰذا مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، حکومت رینی کینال کے ذریعے نارا ریجن میں پانی کی دستیابی کو بہتر بنارہی ہے اور تھر پارکر اور کاچھو کے علاقوں میں اسٹوریج اور ڈیموں کے ذریعے پانی کی دستیابی کو بہتر بنارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2021-22کے مالی سال کے لیے محکمہ زراعت کے اخراجات کا بجٹ تخمینہ 21.23 ارب روپے لگایا گیا ہے اور اس میں موجودہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کی کل 182اسکیمیں شامل ہیں اور ان کے لیے 11.960ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے 164 جاری اسکیمیں ہیں جبکہ 18رواں مالی سال کے دوران شروع کی گئیں ہیں اور مزید 17بلین روپے ایریگیشن سیکٹر کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

اسٹیمپ ڈیوٹی اور خدمات پر سیلز ٹیکس:


وزیراعلیٰ سندھنے کہا کہ کنونس اور مختلف کاغذات پر اسٹیمپ ڈیوٹی کی شرح کو 2 فیصد سے ایک فیصد کیا جارہا ہے، کرائے پر اسٹمپ ڈیوٹی کی شرح کو 1.5 فیصد سے ایک فیصد کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیر منقولہ جائیداد کی فروخت، کنونس وغیرہ پر اسٹمپ ڈیوٹی کی شرح کو 2 فیصد سے ایک فیصد کیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاور آف اٹارنی کے لیے اس کی شرح کو 3 فیصد (خریداری کی رقم)سے کم کر کے ویلیوایشن ٹیبل کے مطابق یا اصل قیمت کے فلوٹنگ ریٹ کا ایک فیصد کیا جارہا ہے۔

رو ڈ انفرا اسٹرکچر:


وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ گزشتہ سال بجٹ تقریر میں بتا یا گیا تھا کہ پبلک پرا ئیوٹ پا ر ٹنر شپ کے تحت ملیر ایکسپریس وے پرا جیکٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ کے تحت 38.75کلو میٹر 6 رو یہ کا ٹینڈر 27.58 ارب رو پے میں دیا گیا ہے اور اس سے حکومت سندھ کے اربوں روپے کی بچت ہو ئی۔

انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ اگلے دو تین ماہ میں فائنل کلوز حا صل کر لیا جائے گا، اس منصو بے سے نہ صر ف کرا چی میں ٹر یفک کا دبا ؤ کم ہو گا بلکہ آمدو رفت کا ایک محفو ظ ذر یعہ فرا ہم ہو گا اور انفراسٹرکچر میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ ایم 9۔ ایم 5لنک رو ڈ منصو بہ سر ما یہ کا روی کی ترغیب کے لیے اگست 2020 میں شرو ع کیا گیا تھا، یہ منصو بہ پو ر ٹ قا سم، لانڈھی، کو رنگی اور اسٹیل مل کے صنعتی علا قو ں سے جا نے والی ٹریفک کو ملک کے با لائی علاقو ں تک رسا ئی کے لیے تجا رتی کوریڈور فرا ہم کر تا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لنک روڈ پروجیکٹ پبلک پرائیویٹ پاررٹنرشپ کی اعلیٰ مثال بن گیا ہے، منصوبہ کا تخمینہ 5.5بلین روپے جبکہ جو بولی ہے وہ 2بلین سے بھی کم کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس رعایتی معاہدہ پر یکم اپریل 2021 میں دستخط ہوئے اور امید ہے کہ اگلے دو ماہ میں تعمیراتی کام شروع ہوجائے گا۔