'سفارشات لے کر بجٹ میں شامل نہیں کی گئیں، پتہ نہیں کن کے کہنے پر بجٹ بنا ہے'

'سفارشات لے کر بجٹ میں شامل نہیں کی گئیں، پتہ نہیں کن کے کہنے پر بجٹ بنا ہے'
فنانس بل 2020 میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے متعلق اراکین سینیٹ کی سفارشات کے حوالے سے قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی، ترقیات اور خصوصی امور کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر آغا شاہ زیب دورانی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز ہدایت اللہ، گیان چند، میر کبیر احمد محمد شاہی، محمد عثمان خان کاکڑ، کلثوم پروین اور نصیب اللہ بازئی کے علاوہ وزیر منصوبہ بندی و خصوصی امور اسد عمر اور وزارت منصوبہ بندی کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر آغا شاہ زیب دورانی نے کہا کہ پارلیمنٹرین عوام کے نمائندے ہوتے ہیں، عوامی مسائل اور علاقے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اقدامات اٹھاتے ہیں اور پارلیمنٹرین کی بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ نئے بجٹ میں علاقے کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے متعدد سکیمیں اور مختلف منصوبے پی ایس ڈی پی میں شامل ہو سکیں، مگر افسوس کی بات ہے کہ ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی سے سفارشات تو حاصل کی جاتی ہیں مگر انہیں شامل نہیں کیا جاتا جو ہاؤس کی بھی توہین کے مترادف ہے۔

سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ صوبہ بلوچستان کے ہر ضلع اور حلقے میں کام کی ضرورت ہے۔ ملک کے سالانہ بجٹ میں ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی اور اراکین سینیٹ سے سفارشات تو حاصل کی جاتی ہیں مگر اُن کو شامل نہیں کیا جاتا جو انتہائی افسوسناک ہے ہماری سفارشات کو اہمیت نہیں دی جاتی، جب تک یقین دہانی نہیں کرائی جائے گی تب تک سفارشات تیار نہیں کریں گے۔

سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ سینیٹرز اپنے علاقوں کی فلاح و بہبود کیلئے محنت سے سفارشات تیار کرتے ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ پی ایس ڈی پی میں صرف اُن منصوبوں کو شامل کیا جاتا ہے جن کی صوبے منظوری دیتے ہیں۔ سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کی سفارشات کو شامل نہ کرنا پارلیمنٹ کی توہین ہے، ایوان بالا چاروں صوبوں کی یکساں نمائندگی کرتا ہے اس کے اختیارات کو بڑھانا چاہیے۔

سینیٹر نصیب اللہ بازئی نے کہا کہ کرونا کے مشکل حالات میں بھی ہم اپنی عوام اور علاقے کی ترقی کیلئے یہاں محنت سے سفارشات تیار کرتے ہیں مگر اُن کو شامل نہیں کیا جاتا۔

سینیٹر گیان چند نے کہا کہ ہماری سفارشات کو اہمیت نہ دینا پارلیمنٹ کی توہین ہے، ان مسائل کو مناسب فورم پر اٹھانا چاہیے۔ سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ گذشتہ 8 برسوں سے اپنے علاقے کی ترقی کیلئے سفارشات دے رہا ہوں مگر اُن کو شامل نہیں کیا جاتا اس سال احتجاجا ً کوئی سفارش نہیں دوں گا۔

انہوں نے کہا کہ سابق فاٹا کے علاقوں کو صوبے میں ضم کر دیا گیا ہے اور اس کی ترقی کیلئے 100ارب روپے مختص کئے گئے تھے اور انتہائی کم فنڈز دیئے گئے ہمارے علاقوں میں 300 سو بچوں کیلئے ایک کمرہ اور 180 بچوں کے لئے ایک استاد ہے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ایوان بالا کے قانون میں درج ہے کہ ایوان بالا دو ہفتوں میں سفارشات فراہم کرے گا مگر اس کے آگے کچھ نہیں لکھا۔ بجٹ وفاق کا اختیار ہے اور قومی اسمبلی نے اسے پاس کرنا ہے۔ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرامز میں صوبوں کا بنیادی کردار ہے صوبوں سے منظور شدہ سکیموں اور منصوبوں کو شامل کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عنقریب ایک کمیٹی بنائی جائے گی جس میں اراکین قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ اراکین سینیٹ کو بھی شامل کیا جائے گا یہ کمیٹی عملدرآمد کا جائزہ لے گی۔ انہوں نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرامز میں صوبوں سے نامنظور سکیموں کو وفاق شامل نہیں کر سکتا۔ ایکنک اور سی ڈی ڈبلیو پی میں صوبوں کی نمائندگی شامل ہوتی ہے سسٹم میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ جس پر اراکین کمیٹی نے کہا کہ جب سکیمیں اور منصوبے متعلقہ صوبوں کی منظوری کے بغیر شامل نہیں کئے جا سکتے تو بجٹ کے حوالے سے اراکین سینیٹ جو 20، 20 گھنٹے محنت کر کے سفارشات تیار کرتے ہیں اُن سفارشات کو شامل نہ کرنا انتہائی افسوسناک ہونے کے ساتھ ساتھ وقت اور قومی خزانے کا ضیاع بھی ہے۔

اراکین کمیٹی نے کہا کہ احتجاجاً کمیٹی کی مزید کارروائی کا بائیکاٹ کر تے ہیں اور جب بجٹ ہاؤس میں پیش کیا جائے گا تو اس کی بھر پور مخالفت کریں گے۔ قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ مالی سال 2020-21 کے بجٹ میں پی ایس ڈی پی کیلئے احتجاجاً کوئی سفارش نہیں دی جائے گی اور کمیٹی کے اجلاس کی مزید کارروائی بھی احتجاجاً نہیں کی جائے گی۔