پسماندہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کسی بھی طالب علم کے لیے یونیورسٹی تک پہنچنا ایک خواب سے کم نہیں۔ اگر وہ یونیورسٹی بلوچستان سے باہر کسی بڑے شہر کا تعلیمی ادارہ ہو، جہاں بڑی بڑی عمارتیں ہوں، سبزہ ہو، پانی وبجلی کی سہولیات ہوں اور سب سے بڑھ کر امن ہو۔
ایسا ماحول بلوچستان کے کسی طالب علم کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔ ہمارے اکثر ماں باپ تو اتنے بھی پڑھے لکھے نہیں کہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد انھیں سمجھا سکیں کہ ہم کس شعبے میں پڑھ رہے ہیں۔
وہ یا تو ڈاکٹر کو جانتے ہیں یا ماسٹر یعنی استاد۔ اس کے علاوہ تو تمام تر باتیں بڑی بڑی عمارات، سڑکیں اور بازاروں یا اس ماحول کی ہوتی ہیں جس میں بچے بے خوف کہیں بھی کسی بھی وقت آ جا سکتے ہیں اور یہ تمام تر کہانیاں بوڑھے ماں باپ، بھائی بہن سب مل کر ہم سے ایسے سنتے ہیں کہ بابا اپنے محنت ومشقت کے تکالیف، ماں اپنی سوئی سے چھپی ہوئی انگلیوں کی درد اور بہنیں لکڑیوں سے نکلنے والی دھوئیں سے سوجتی ہوئی آنکھوں کے آنسوؤں کو بھول جاتی ہیں۔ بھائی، اگر کہ وہ لاپتہ نہیں ہیں اور سمندر کی ماہی گیری یا بارڈر کی مزدوری سے صحیح سلامت گھر آئے ہیں تو وہ بھی شاید سن لیں۔
ایک بلوچ طالب علم کا یہ خواب تو ضرور ہوگا کہ وہ جلد ہی اسلام آباد، پنجاب یا کراچی سے اپنی تعلیم مکمل کرکے گھر آئے اور اپنوں کی خدمت کرے مگر وہ یہ بھی خواب دیکھتا ہے کہ اپنے بابا کو وہ ترقی یافتہ شہر ضرور دکھائے جہاں سے وہ پڑھ کر آیا ہے اور اپنے سے چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی بلوچستان سے نکال کر وہیں پڑھائے جہاں وہ پڑھ لکھ بھی جائیں اور زندہ و سلامت بھی ہوں۔
مگر ایسا کسی نے نہیں سوچا ہوگا کہ کبھی ان کا بابا حفیظ بلوچ کے بابا کی طرح اسلام آباد دیکھے۔ وہ بابا جو گاؤں سے اپنا شہر خضدار بھی کئی کئی مہینوں بعد دیکھتا ہے اب وہ ایک تصویر لیے بے بسی کے ساتھ ایک بڑے شہر کے بڑی عمارتوں، کشادہ سڑکوں اور ترقی یافتہ ماحول میں کئی دنوں سے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بیٹھا ہے۔
اسے نہ تو وہاں بولنے والے لوگوں کی زبان سمجھ آتی ہے اور نہ ہی اپنی بے بسی سمجھا سکتے ہیں۔ اس بلوچ بابا نے محنت مزدوری کرکے اپنے بیٹے کو اس وفاقی دارالحکومت میں پڑھنے کے لیے بیجھا تھا مگر آج وہ خود یہاں اپنے لاپتہ بیٹے کی تصویر لیے بیٹھے ہیں۔ کبھی وہ کشادہ سڑکوں کو دیکھتے ہیں تو کبھی کورٹ ٹائی پہنے لوگوں کو اور کبھی چپکے سے تصویر کو بوسہ دے کر شیشے میں سے اپنی بے بسی کو۔ اُف یا اللہ! ایسے کبھی کسی بلوچ کے بابا کو اسلام آباد نہ دکھانا۔
حفیظ بلوچ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل فزکس کے طالب علم ہیں جنھیں 8 فروری کو خضدار سے اس وقت لاپتا کیا گیا جب وہ چھٹیوں پر آئے ہوئے ایک اکیڈمی میں پڑھا رہے تھے۔
بلوچستان کے کسی بھی طالب علم کے لیے اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں پڑھنا ایسا ہے جیسے کسی دوسرے صوبے کے طالب علم کے لیے آکسفورڈ اور کیمرج۔ خضدار سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کا فاصلہ محض 4 گھنٹوں کا ہے لیکن حفیظ بلوچ کے ایک دوست کے مطابق حفیظ نے پہلی دفعہ کوئٹہ تب دیکھا تھا جب ماسٹر کے لیے وہ بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ گئے تھے۔
آخری سمسٹر میں حفیظ بلوچ کا موبائل نمبر جب بند ملا تو ایک دوست کے دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ حفیظ نے لیپ ٹاپ لینے کے لیے اپنا موبائل بیچا ہے تاکہ اپنا تھیسس مکمل کرسکے۔ ماسٹر مکمل کرنے کے بعد وہ شام کو خضدار شہر کی ایک اکیڈمی میں بچوں کو پڑھاتے تھے۔
انھوں نے ایم فل کے لیے قائداعظم یونیورسٹی میں ٹیسٹ دیا اور داخلہ لینے میں کامیاب ہوگئے جہاں ان کے ساتھ بڑے شہروں کے اکثر ایلیٹ کلاس کے طالب علم تھے۔ لیکن وہ پڑھنا اور زندہ رہنا چاہتے ہیں اس لیے وہ لاکھ تکالیف کے باوجود ملک کے دارلحکومت کی مہنگائی، حقارت وتعصب کو برداشت کیے پڑھ رہا تھا لیکن جب تعلیم کے آخری مراحل کو پہنچے تو لاپتہ کر دیے گئے۔ آج ان کے لیے ان کے دوست اور بابا ایک کیمپ لگائے مطالبہ کر رہے ہیں کہ حفیظ بلوچ کو بازیاب کیا جائے۔
یہ تو شکر ہے کہ حفیظ بلوچ کے بابا اسلام تھوڑے دیر سے گئے ورنہ اگر اس دن وہ وہاں ہوتے جب وفاقی دارالحکومت میں اسلامی جمہوریہ کے پولیس والے پرامن مارچ کرنے والوں پر ڈنڈے برسا رہے تھے جن کے ہاتھوں میں حفیظ بلوچ کی تصاویر تھیں اور زبان پر بازیاب کرو کے نعرے۔
نہ جانے اس بوڑھے بابا کو زندان میں قید اپنے بیٹے کے کیسے خیالات آتے۔ لیکن شاید ہمارے مملکت خداداد کے ادارے خود ہی ایسے خیالات سوچنے پر مجبور کرانا چاہتے ہیں کہ دیکھیں ایک تو آپ بلوچ کہیں بھی محفوظ نہیں اور اگر پھر بھی نہ سوچ پائے اور آئین و قانون کی بات کی تو ڈنڈے پڑینگے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ سمیت انسانی حقوق کی وزیر اور آرمی چیف بھی کئی دفعہ لاپتہ افراد کے کیسز سے متعلق تشویش کا اظہار کرچکے ہیں کہ یہ ایک سنگین ترین مسئلہ ہے لیکن نہ جانے کیوں اداروں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا؟
یا تو ان کی نظر میں یہی واحد حل ہے۔ اگر یہ ایک حل ہوتا تو ملک کے بڑے اور ذمہ دار ادارے اسے سنگین مسئلہ نہیں کہتے۔ یہی تو بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس نے بلوچستان اور اسلام آباد کے درمیان دوریاں پیدا کی ہیں۔ بجائے ان دوریوں کو کم کرنے کی اسلام آباد انتظامیہ نے بھی وہی کر دکھایا جو ادارے بلوچستان میں کر رہے ہیں۔
شاید اس عمل کا ایک ہی جواز ہوگا کہ اس سے خوف کا ماحول ہوگا۔ جو بھی مشکوک نظر آئے، اسے اٹھایا جائے تاکہ قانون و آئین، شہری حقوق اور جمہوریت کی جگہ بس خوف و خاموشی ہو۔ لیکن ایک دہائی سے جاری اسی خوف کے ماحول کو کیا بلوچستان میں برقرار رکھا جا سکا؟ بلکہ کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات بلوچ کے قتل کے بعد تو بلوچستان میں خوف سے بھی لوگوں کو نفرت ہونے لگا اور اس نفرت کا کھل کر اظہار بھی کیا گیا۔
اب بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ اس حد تک سنگین ہوگیا ہے کہ ہر وہ بلوچ طالب علم جو دیگر شہروں میں زیر تعلیم ہیں سب کو ایک خوف لاحق ہے۔ پہلے بلوچ ماں باپ بلوچستان میں اپنے بچوں سے خوف زدہ تھے لیکن اب وہ بلوچستان سے باہر بھی اپنے بچوں سے متعلق بے چین ہیں۔ کیونکہ یہ بوڑھے ماں باپ اپنے بچوں کو اس لیے بلوچستان سے باہر تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ محفوظ بھی رہیں اور تعلیم بھی حاصل کریں ناں کہ اس لیے کہ کل ان کی جگہ ان کی تصویر لیے وہ خود وہاں جائیں جہاں بچے کو پڑھنے کے لیے بیجھا تھا۔