وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چودھری نے کہا ہے کہ جو سیاسی منظر نامہ بن رہا ہے وہ جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہوگی۔ اس سے پہلے ہی تمام سیاسی جماعتیں کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گی۔
یہ اہم بات انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''انسائیڈ ودد نادیہ نقی'' کیساتھ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ 27 مارچ کو جلسے کے اعلان کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے فواد چودھری کا کہنا تھا کہ جلسہ کرنا ہمارا حق ہے۔ پی ٹی آئی کوئی متشدد جماعت نہیں اور نہ ہی ہمارے کوئی مدرسے ہیں جہاں سے ہم فضل الرحمان کی طرح بچوں کو اکھٹے کرکے لے آئیں گے۔
فواد چودھری نے کہا کہ ہمارے لوگ تو مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم کوئی مذہبی شدت پسندوں کی جماعت نہیں ہیں جیسے کہ جے یو آئی ہے اور نہ ہی ہم نے بدمعاش اور ڈاکو پالے ہوئے ہیں جیسے کہ زرداری صاحب نے اور نہ ہی ہمارے پاس ن لیگ کی طرح غنڈے ہیں۔
ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے جلسہ نہ کرنے کے حوالے سے جو بیان دیا ہے میں اس سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ میں نے پہلے بھی یہی بات کی تھی اور ہماری کوشش بھی یہی ہے کہ تصادم کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو سیاسی منظر نامہ بن رہا ہے، وہ جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہوگی۔ اس سے پہلے ہی تمام سیاسی جماعتیں کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کو پاکستان کی عوام نے پانچ سال کا مینڈیٹ دیا ہے۔ ماضی میں محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان جو معاہدہ سائن ہوا تھا، اس میں یہی درج کیا گیا تھا کہ دوسروں کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے گا۔ اب مینڈیٹ عمران خان کے پاس ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو اپنے اسی معاہدے کے پیش نظر اس مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اب الیکشن میں عرصہ ہی کتنا رہ گیا ہے۔ کم از کم 6 ماہ بعد تو انتخابی مہم کا آغاز ہو جائے گا۔ پاکستان کو اتنی بڑی ایکسرسائز میں گزارنے سے اپوزیشن کو کیا فائدہ ہوگا مجھے اس کی کوئی منطق سمجھ نہیں آ رہی ہے۔
نادیہ نقی نے سوال پوچھا کہ آپ کس امید کیساتھ کہہ رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہوگی، یہ امید آپ کہاں سے Draw کر رہے ہیں، یہ کس طرح سے ممکن ہے؟
اس کا جواب دیتے ہوئے فواد چودھری کا کہنا تھا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں ایک بڑا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ ہمیں ان لوگوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننا چاہیے جو کہ پارلیمانی سسٹم سے باہر ہیں اور وہ اپنے دو کلو گوشت کیلئے پوری بھینس کو ہی ذبح کرنے کے درپے ہیں۔ ضروری ہے کہ ان لوگوں سے بچتے ہوئے ہم سسٹم کو آگے لے کر چلیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ 2008ء سے 2013ء تک اور اس کے بعد 2018ء تک اقتدار میں رہنے والی جماعتوں کو اپنے مینڈیٹ کے مطابق پورا موقع ملا، یہی حق اب تحریک انصاف کا بھی ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے استعفے کے مطالبے پر ان کا کہنا تھا کہ یہ ناممکن ہے۔ اس کیلئے اپوزیشن کو ان تمام انتہائوں سے گزرنا پڑے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپوزیشن ہمارے ساتھ بیٹھ کر یہ بات طے کرے کہ وہ الیکشن کیسے کروانا چاہتے ہیں۔ ہم ایک ایسے ماحول میں الیکشن کروانا چاہتے ہیں جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ ریفارمز کیلئے اپوزیشن اور حکومت کو مل بیٹھنا چاہیے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت ہمارے ساتھ 179 ارکان کھڑے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے آخری مرتبہ وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ دیا تھا۔ دوسری جانب اپوزیشن کے پاس 145، 150 سے اوپر بندے نہیں ہونگے۔ اتحادیوں کی اپوزیشن کیساتھ ملاقاتیں صرف سیاست ہیں۔ تمام اتحادی حکومت اور عمران خان کیساتھ ہی رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میری علیم خان کیساتھ تین تفصیلی ملاقاتیں ہو چکی ہیں، اسی طرح سے جہانگیر ترین کیساتھ بھی میرا مسلسل رابطہ ہے۔ یقینی طور پر ان کی ناراضگیاں موجود ہیں۔ اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ وہ عمران خان کیساتھ رہیں گے۔