ملک بھر کی 66 سرکاری جامعات مستقل وائس چانسلر سے محروم، ہائر ایجوکیشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کر دی۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ یونیورسٹیاں پاکستان کا مستقبل ہیں لیکن انہیں منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے یونیورسٹیوں پر مستقل وائس چانسلر نہ لگانے اور نامکمل رپورٹس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایک ماہ میں وائس چانسلرز کی تقرری پر پیشرفت رپورٹس مانگ لی.
ملک بھر کی سرکاری یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتیوں سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی. ہائر ایجوکیشن کی طرف سے ملک بھر کی یونیورسٹیوں سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں کل 154 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔ 66 یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کے لیے اضافی چارج دیا گیا ہے یا عہدے خالی ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کی 29 یونیورسٹیوں میں سے 24 پر مستقل وائس چانسلر تعینات ہیں جب کہ 5 خالی ہیں۔ بلوچستان کی 10 یونیورسٹیوں میں سے 5 میں وائس چانسلرز تعینات ہیں جب کہ 5 میں ایکٹنگ وی سی موجود ہیں۔ پختونخوا کی 32 سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 10 پر مستقل وی سی موجود ہیں، 16 پر اضافی چارج اور 6 خالی ہیں۔ اسی طرح پنجاب کی 49 سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 20 پر مستقل اور 29 پر قائمقام وی سی موجود ہیں جب کہ سندھ کی 29 سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 24 پر مستقل اور 5 پر اضافی چارج پر وی سی تعینات ہیں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ محکمہ تعلیم میں بیٹھے افسران کیا مکھیاں مار رہے ہیں۔اس ملک میں سب کچھ آہستہ آہستہ زمیں بوس ہورہا ہے۔ اگر کوئی کالم گلوچ کے اعدادوشمار جاری ہوں تو پاکستان پہلی پوزیشن پر آئے گا۔ کچھ لوگ سکولوں کو تباہ کر کے کہہ رہے ہیں ہم اسلام کی خدمت کررہے ہیں۔ سکولوں کو تباہ کرنے والے ایسے لوگوں سے حکومتیں پھر مذاکرات بھی کرتی ہیں۔ جس طرح پی آئی اے میں تباہی ہوئی اسی طرح یونیورسٹیوں میں بھی تباہی ہورہی ہے۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ عدالتی معاونت سے متعلق رول 27 اے سے متعلق لاعلم نکلے اور کہا ہمیں نوٹس جاری نہیں ہوا. جس پر چیف جسٹس نے کہا عدالت کی معاونت کیلئے نوٹس جاری کیا گیا تھا بطور فریق نہیں. آپ کو بنیادی بات کا علم نہیں سندھ کیلئے دعا ہی کرسکتے ہیں. وکیل کے پی نے 19 یونیورسٹیوں پر 19 چانسلر کی عدم تعیناتی کا بتاتے ہوئے کہاکہ ہر یونیورسٹی کیلئے تین تین نام گورنر کو بھجوائے ہیں تاہم نام پبلک نہیں کئے. چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا عوام سے کیا دشمنی ہے جو نام چھپائے جا رہے ہیں. کیا یہ ایٹمی کوڈز یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہوگی. عوام کے ٹیکس سے تنخواہ لیتے ہیں اور انہی سے معلومات چھپا رہے ہیں. ہر جگہ اپنا بندہ لگانے کیلئے خفیہ رکھا جاتا ہے شاید کسی ایم پی اے کے رشتہ دار کو لگانا ہوگا. ملک میں کوئی ایک سرکار بھی ٹھیک سے نہیں چل رہی ہے. صرف تعلیم کا شعبہ درست کریں پورا ملک ٹھیک ہوجائے گا.
سپریم کورٹ نے سرکاری جامعات میں اکیڈمک اور نان اکیڈمک عملے کی تناسب کی تفصیلات، کنٹرولر امتحانات اور ڈائریکٹر فنانس کی خالی آسامیوں کی تفصیلات، یونیورسٹیز سے بجٹ کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔